Shadow
سرخیاں
پولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئےیورپی کمیشن صدر نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر جوہری حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دے دیااگر خطے میں کوئی بھی ملک جوہری قوت بنتا ہے تو سعودیہ بھی مجبور ہو گا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرے: محمد بن سلمان

آزاد طالبان: جنگ یاامن کا فیصلہ قیادت کے ہاتھ

غنی انتظامیہ کی جانب سے رہا کیے جانے والے طالبان قیدیوں نے مستقبل کی حکمت عملی واضح کر دی ہے۔ قیدیوں کا کہنا ہے کہ رہائی کے بعد اب وہ امن سے رہیں گے تاہم اس کے لیے امریکہ اور غنی انتظامیہ کو بھی معاہدات پر عمل کرنا ہو گا۔ ورنہ وہ دوبارہ بندوق اٹھائیں گے۔ رہائی پانے والے قیدیوں نے جنگ کا فیصلہ قیادت پر چھوڑا ہے اور کہا ہے کہ وہ اب بھی قیادت کے کہنے پر لبیک کہیں گے۔

اس سال 28 فروری کو دوحہ میں ہونے والے امریکہ طالبان امن معاہدے کے تحت 5000 طالبان قیدی رہا کیے جانے تھے، تاہم اشرف غنی کی انتظامیہ مختلف حیلوں بہانوں سے اس میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ غنی انتظامیہ نے تین ماہ گزرنے کے باوجود اب تک صرف 1900 طالبان قیدیوں کو رہا کیا ہے، جس میں ایک ہی بار میں سب سے بڑی تعداد 900 قیدی بروز منگل بگرام اور پل چرخی سمیت ملک کی دیگر جیلوں سے رہا کی گئی۔ غنی انتظامیہ کے ان ہتھکنڈوں کی وجہ سے افغان امن مذاکرات شروع نہیں ہو پا رہے۔

دوسری طرف افغان حکومت رہا ہونے والے قیدیوں سے زبردستی بیانِ لے رہی ہے۔ جس کے تحت طالباندوبارہ بندوق نہیں اُٹھائیں گے تاہم رہا ہونے والے طالبان کا کہنا ہے کہ یوں زبردستی کا بیان کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور وہ وہی کریں گے جو انکی قیادت کہے گی۔ امن انکی دیرینہ خواہش ہے تاہم اگر غنی انتظامیہ اور امریکہ نے معاہدے کی پاسداری نہ کی تو وہ بھی ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوں گے۔

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

8 − 7 =

Contact Us