غنی انتظامیہ کی جانب سے رہا کیے جانے والے طالبان قیدیوں نے مستقبل کی حکمت عملی واضح کر دی ہے۔ قیدیوں کا کہنا ہے کہ رہائی کے بعد اب وہ امن سے رہیں گے تاہم اس کے لیے امریکہ اور غنی انتظامیہ کو بھی معاہدات پر عمل کرنا ہو گا۔ ورنہ وہ دوبارہ بندوق اٹھائیں گے۔ رہائی پانے والے قیدیوں نے جنگ کا فیصلہ قیادت پر چھوڑا ہے اور کہا ہے کہ وہ اب بھی قیادت کے کہنے پر لبیک کہیں گے۔
اس سال 28 فروری کو دوحہ میں ہونے والے امریکہ طالبان امن معاہدے کے تحت 5000 طالبان قیدی رہا کیے جانے تھے، تاہم اشرف غنی کی انتظامیہ مختلف حیلوں بہانوں سے اس میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ غنی انتظامیہ نے تین ماہ گزرنے کے باوجود اب تک صرف 1900 طالبان قیدیوں کو رہا کیا ہے، جس میں ایک ہی بار میں سب سے بڑی تعداد 900 قیدی بروز منگل بگرام اور پل چرخی سمیت ملک کی دیگر جیلوں سے رہا کی گئی۔ غنی انتظامیہ کے ان ہتھکنڈوں کی وجہ سے افغان امن مذاکرات شروع نہیں ہو پا رہے۔
دوسری طرف افغان حکومت رہا ہونے والے قیدیوں سے زبردستی بیانِ لے رہی ہے۔ جس کے تحت طالباندوبارہ بندوق نہیں اُٹھائیں گے تاہم رہا ہونے والے طالبان کا کہنا ہے کہ یوں زبردستی کا بیان کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور وہ وہی کریں گے جو انکی قیادت کہے گی۔ امن انکی دیرینہ خواہش ہے تاہم اگر غنی انتظامیہ اور امریکہ نے معاہدے کی پاسداری نہ کی تو وہ بھی ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوں گے۔