ترکی کی خبر ایجنسی انادولو نے مغربی ممالک کی جانب سے آیا صوفیہ کے مذہبی تشخص کو بحال کرنے اور اسے عجائب گھر سے مسجد میں تبدیل کرنے کے فیصلے پرتنقید کے جواب میں اہم معلومات جاری کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ترکی میں غیر مسلم آبادی کے لیے عبادت گاہیں یورپ کے پانچ بڑے ممالک جن میں برطانیہ، امریکہ، ہالینڈ، روس، فرانس اور جرمنی شامل ہیں سے پانچ گنا زیادہ ہیں۔
ترکی میں اس وقت 1 لاکھ 80 ہزار 8 سو 54 عیسائی، اور بیس ہزار یہودی آباد ہیں، جو ملکی آبادی کی نسبت اعشاریہ چار فیصد بنتے ہیں۔ یوں ہر 461 غیر مسلم کے لیے ترکی میں ایک عبادت گاہ موجود ہے۔
دوسری طرف امریکہ میں تقریباً 35 لاکھ مسلمان موجود ہیں جو ملکی آبادی کا ایک اعشاریہ ایک فیصد بنتا ہے تاہم وہاں ہر 1600 مسلمانوں کے لیے ایک مسجد ہے۔
یوں برطانیہ میں 33 لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں، جو ملکی آبادی کا 5 اعشاریہ ایک فیصد ہیں تاہم ہر 1975 مسلمانوں کے لیے ایک مسجد ہے۔
ہالینڈ میں 8 لاکھ 64 ہزار سے زائد مسلمان ملکی آبادی کا 5 اعشاریہ 1 فیصد ہیں، تاہم وہاں ہر 1728 مسلمانوں کے لیے ایک مسجد ہے۔
روس میں 2 کروڑ 30 لاکھ مسلمان ملکی آبادی کا 15 اعشاریہ ایک فیصد ہیں تاہم 2875 مسلمانوں کے لیے ایک مسجد دستیاب ہے۔
فرانس میں 60 لاکھ مسلمان ملکی آبادی کا 9 فیصد ہیں لیکن آزادی کے علمبردار ملک میں ہر 2400 مسلمانوں کے لیے ایک مسجد دستیاب ہے۔
یوں جرمنی میں 50 لاکھ مسلمان آباد ہیں جو ملکی آبادی کا 5 اعشاریہ 7 فیصد ہیں تاہم وہاں بھی ہر 2200 مسلمانوں کے لیے صرف ایک مسجد ہے۔
مغربی ممالک آیا صوفیہ کے مذہبی تشخص کو بحال کرنے پر دنیا میں کچھ ایسے پراپیگنڈے میں مصروف ہیں جیسے ترک حکومت نے عیسائی عبادت گاہ کو مسجد میں بدل ڈالا ہو۔ جبکہ حقیقت میں آیا صوفیہ بازنطینی سلطنت کے دور میں ایک سیاسی و عسکری مرکز تھا، جس میں اس دور کے رواج کے مطابق کلیسا بھی شامل تھا۔ تاہم سلطان فاتح کا آیا صوفیہ کو مسجد بنانے کا فیصلہ کلیسے کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں بلکہ مقامی تہذیب میں اس کے سماجی نفسیات اور سیاسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئےکیا گیا تھا۔ وگرنہ اس سے قبل مغربی کیتھولک چرچ کی افواج قسطنطنیہ شہر پر چڑھائی کے دوران کئی بار آیا صوفیہ کو نیست و نابود کرتی رہیں۔