ترکی کی اعلیٰ انتظامی عدالت نے استنبول کی معروف سیاسی و تاریخی عمارت آیا صوفیہ کا مسجد کا رتبہ بحال کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے، جس کے بعد یہاں عبادت کی اجازت ہو گی۔ ترکی جمہوریہ کے قائم ہونے کے بعد کابینہ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں آیا صوفیہ کو عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا تھا، جہاں کسی قسم کی عبادت کی اجازت نہ تھی۔ جس پر ترکی کی اعلیٰ انتظامی عدالت میں درخواست دائر تھی کہ 1934 میں ترکی کی کابینہ کی جانب سے آیا صوفیہ مسجد کو عجائب گھر میں تبدیل کرنے کے فیصلے کو ختم کیا جائے، اور اس کے مسجد کے رتبے کو بحال کیا جائے۔
عدالت نے نظر ثانی کی درخواست پر چند ہفتے قبل اپنے فیصلے کو محفوظ کیا اور آج بروز جمعہ، 10 جولائی 2020 کو فیصلہ سناتے ہوئے آیا صوفیہ میں عبادت کی اجازت دے دی ہے۔ یوں عدالت نے درخواست کو قبول کیا ہے اور آیا صوفیہ کے مسجد کے رتبے کو بحال کر دیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ “آیا صوفیہ محمد فاتح وقف کی ملکیت ہے اور ملک میں مذہبی آزادی کے تحت شہریوں کو کسی جگہ پر عبادت سے روکا نہیں جا سکتا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا ہے کہ عمارت کی تاریخی حیثیت کو بھی برقرار رکھا جائے، (جس میں عمارت کی چھت اور دیواروں پر کشیدہ تصاویر کو محفوظ رکھنا شامل ہے)، اور سیاح بھی اس میں یونہی دخل ہو سکیں گے جیسے سلطان احمد مسجد میں داخل ہوتے ہیں”۔
آیا صوفیہ کو استنبول کی فتح کی علامت مانا جاتا ہے اور ترکی کے علاوہ یورپ، بالخصوص مشرقی یورپ میں اس کی بڑی سیاسی اہمیت ہے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق آیا صوفیہ کے مقام پر پہلی بار سن 532 سے 537 عیسوی کو عبادت گاہ تعمیر کی گئی۔ تاہم اس سے قبل بھی اسی مقام پر تین بار عبادت گاہیں تعمیر کی گئیں جنہیں مختلف ادوار میں یا تو عسکری حملوں میں نیست و نابوت کیا گیا یا وہ قدرتی آفات میں تباہ ہوئیں۔ عسکری یلغاروں میں نمایاں حملہ رومی بادشاہ سیپٹیمئس سیورس کا مشرق میں بازنطینی ریاست پر حملے کے دوران تھا جس میں اسے مکمل تباہ کردیا گیا۔
تاہم رومیوں نے بھی 360 عیسوی میں دوبارہ اسی مقام پر کلیسا تعمیر کیا جسے آیا صوفیہ یعنی “مقدس حکمت” کے مرکز کا نام دیا گیا۔ آیا صوفیہ کو 44 سال بعد ہی تباہی کا سامنا کرنا پڑا جب مقامی بغاوت میں لوگوں نے اسے آگ لگا دی۔ آیا صوفیہ کی دوبارہ تعمیر 415 عیسوی میں کی گئی اور اسے ایک بار پھرعبادت کے لیے کھول دیا گیا۔ 117 سال تک آیا صوفیہ ریاست کی سب سے بڑی عبات گاہ رہی جو 532 میں دوبارہ مقامی بغاوت کی نظر ہو گئی۔
تاہم محض 39 دنوں کے بعد آیا صوفیہ کی تعمیر کو دوبارہ شروع کر دیا گیا جس کی تعمیر 6 سال میں مکمل ہوئی۔ کچھ تبدیلیوں کے علاوہ آیا صوفیہ کا موجودہ نقشہ اسی تعمیر کا شاہکار ہے۔ مختلف حملوں اور قدرتی آفات سے نقصان اٹھانے کی تاریخ کی حامل عمارت کو اب کی بار لکڑی کے بجائے خاص اینٹیوں اور گاڑھے سے تعمیر کیا گیا تاکہ آگ اور دیگر آفات سے مستقبل میں بچایا جا سکے۔
چوتھی صلیبی یلغار کے دوران کیتھولک عیسائی حملہ آوروں نے بیت المقدس کے راستے میں آیا صوفیہ کو بھی لوٹ مار کا شکار بنایا اور اسے روم سے وابستہ کیتھولک کلیسا میں بدل دیا۔ جبکہ لاطینی بادشاہ بدوین دوم نے اپنی تاج پوشی کی رسم بھی آیا صوفیہ میں ہی منعقد کی۔
بازنطینی آیا صوفیہ کو 1261 میں کیتھولک عیسائیوں سے واپس لینے میں کامیاب ہو گئے تاہم اس دوران یہ ایک بار پھر ملوک الحال عمارت میں بدل چکا تھا، جسکی بادشاہ اندرونیکس سوم نے دوبارہ تزین و آرائش کروائی۔
آیا صوفیہ تقریباً 900 سال تک کلیسا رہا جسے سلطان محمد فاتح نے استنبول کی فتح پر مقامی تہذیب میں اسکی اہمیت، (جسے کسی حد تک جنوبی ایشیا میں سومنات کے مندر کی سیاسی و سماجی اہمیت سے جوڑ کر سمجھا جا سکتا ہے) کو مدنظر رکھتے ہوئے مسجد میں تبدیل کیا۔ یوں 29 مئی 1453 سے آیا صوفیہ مسجد ہے۔ جس میں سلطان محمد فاتح نے یکم جون 1453 کو خود نماز جمعہ ادا کی۔ عثمانی خلافت میں آیا صوفیہ کی عبادت گاہ کے رتبے کو بحال رکھا گیا اور اسے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچایا گیا۔ بلکہ اسکی تزین و آرائش اور دیکھ بھال کے لیے ایک ادارہ قائم کیا جسے جامع آیا صوفیہ وقف کا نام دیا گیا اور اس کے لیے وسائل بھی مہیا کیے گئے۔
سلطان محمد نے آیا صوفیہ میں خطبے کے لیے ممبر، قبلے کے سمت متعین کرنے کے لیے محراب، ایک مدرسہ اور ایک عوامی کتب خانہ بھی قائم کروایا۔ آیا صوفیہ کا پہلا مینار بھی سلطان محمد فاتح نے تعمیر کروایا، جبکہ دیگر مینار اور اندرونی آرائش کا دیگر کام بعد میں آنے والے سلاطین نے کروایا، جن میں سلطان بایزید دوم، سلطان سلیمان اور سلطان سلیم دوم نمایاں ہیں۔
عمارت کو زلزلے کے جھٹکوں سے محفوظ رکھنے میں معروف عثمانی معمار سنان کا نمایاں کردار ہے جن کا نام زلزلے سے محفوظ عمارتوں کا نظریہ دینے اور ڈھانچہ تیار کرنے والے ابتدئی معماروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ معمار سنان نے عمارت کی بیرونی دیواروں کو سہارا مہیا کرنے والے ڈھانچے تعمیر کروائے کیونکہ عمارت میں نمایاں طور پر دراڑیں پڑ چکی تھیں۔ جبکہ گنبد کو سہارا دینے کے لیے ستونوں کے درمیان موجود خلاء کو خصوصی دیدہ ذیب زاویوں کا سہارا دے کر مظبوطی فراہم کی۔
بعد میں آنے والے سلاطین نے بھی ضرورت کے تحت تزین و آرائش پر بھرپور توجہ دی۔ تاہم یورپ کی پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کے خاتمے پر جمہوریہ ترکی کی کابینہ نے آیا صوفیہ کے عبادت گاہ کے رتبے کو پہلی بار بدلتے ہوئے اسے ایک عجائب گھر بنا دیا، جس کے لیے اتاترک مصطفیٰ کمال کی کابینہ نے 24 نومبر 1934 کو باقائدہ منظوری دی۔
ترکی میں انتخابی جمہوری تاریخ کے دوران بھی آیا صوفیہ ایک اہم تاریخی موضوع رہا ہے جس میں مقامی آبادی اور متعدد سیاسی و سماجی رہنماؤں کی جانب سے اسے واپس عبادت گاہ بنانے اور مہنگے ٹکٹ کے بجائے عوام کے لیے کھولنے کے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں۔ تاہم ماضی قریب میں ان مطالبات میں شدت آئی ہے جس پر لبرل مغربی ممالک کی جانب سے تحفظات کے اظہار پر ترکی کی قومی قیادت نے انہیں اندرونی معاملات میں مداخلت اور غیر جمہوری رویہ قرار دیا۔
ترکیی کی حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ آیا صوفیہ کو عبادت کے لیے کھولنا مذہبی آزادی کا حصہ ہے جس پر ماضی میں قدغنیں لگائی جاتی رہی ہیں، جو قطعاً جمہوری رویہ نہیں۔
آج عدالتی فیصلے کے فوری بعد ترک شہری آیا صوفیہ کے بعد جمع ہو گئے اور رات گئے تک نعرے لگاتے رہے۔ شہریوں نے مسجد کے میدان میں نماز مغرب ادا کی اور شکرانے کے نفل بھی ادا کیے۔ ترک صدر طیب اردوان نے اس موقع پر قوم سے خصوصی خطاب میں جامعہ مسجد آیا صوفیہ میں باقائدہ نماز کے آغاز کے لیے 24 جولائی کی تاریخ دی ہے۔ اس دوران ملک کی مذپبی امور کی وزارت مسجد کا انتظام سنبھالے گی اور عبادت کے لیے بنیادی سہولیات کا بندوبست کیا جائے گا۔
آیا صوفی اپنی تقریباً 1500 سالہ تاریخ میں سے محض 86 سال عجائب گھر رہا ہے جبکہ دیگر مختصر تباہی کے ادوار کے علاوہ ہمیشہ عبادت گاہ کے طور پر مشرقی یورپ کی ایک اہم سیاسی علامت بھی ہے۔