ہندوستان کے معروف دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی چین سے سرحدی تنازع پر ہزمیت کے بعد قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت پر شدید برہم ہوئے ہیں۔ تاہم برطرفی اور تبادلوں جیسے صاف دکھائی دینے والے اقدامات سے صرف اس لیے گریز کیا گیا ہے تاکہ عوام کے سامنے غلطی کے باضابطہ اعتراف کے تاثر کو نہ جانے دیا جائے۔
بھارتی دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ اپریل کے وسط میں بھارتی سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر کے علاوہ مقامی ذرائع اور خفیہ معلومات کے ذریعے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ چین ہندوستان کی سرحد پر بڑی فوجی مشقیں کر رہا ہے، جس میں پیپلز لبریشن آرمی کے ہزاروں سپاہی شریک ہیں۔
تاہم ہندوستان نے لداخ میں ریزرو فوج کو متحرک کرنے کا عمل کورونا کے باعث منسوخ کردیا تھا۔ جس کا چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے خوب فائدہ اٹھایا اور بھرپور مشقیں کیں۔ صحافی نے دعویٰ کیا ہے کہ سی ڈی ایس اور این ایس اے نے مبینہ طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کو سب ٹھیک ہے اور کنٹرول میں ہے پر قائل رکھا، اور کہا کہ سرحد عبور کرنے کے انفرادی نوعیت کے اکا دکا واقعات سے وہ آسانی سے نمٹ لیں گے۔ یہ سب کچھ 12 مئی تک ہوتا رہا، جب چین کے دو فوجی ہیلی کاپٹرز نے پنگانگ جھیل کے پار بھارتی کمانڈنگ جنرل کو لے جانیوالے ہیلی کاپٹر کا تعاقب کیا۔
اجے شکلا کا دعویٰ ہے کہ بحران کو پہلی بار اس وقت باضابطہ طور پر تسلیم کیا گیا جب 17 یا 18 مئی کو چینی فوجیوں کے ایک جتھے نے پنگانگ جھیل کے مشرقی کنارے پر بھارتی علاقے میں آٹھ کلو میٹر تک گھس کر بھارتی فوجیوں کو دوبدو لڑائی میں خوب پٹائی کی، جس پر ان میں سے 72 فوجیوں کو ہسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ یوں لیح میں واقع چودھویں کور کے ہیڈ کوارٹرز میں منصوبہ بندی شروع ہوئی۔
حالات پر ایک سینئر فوجی افسر کا کہنا ہے کہ جو کچھ کارگل میں ہوا وہ اپنے آپ کو دوہرا رہا ہے ۔ چار دن بعد 22 مئی کو آرمی چیف جنرل ایم ایم نروانے نے لیح کا دورہ کیا۔ 24 مئی کو مشرقی لداخ کیلئے کمک کی منظوری دی گئی۔ تب تک گلوان میں تصادم کو کم و بیش تین ہفتے گزر چکے تھے۔ اس کے باوجود پارٹی ترجمان (بی جے پی)، اسٹیبلشمنٹ سے دوستانہ رویہ رکھنے والے جرنیل اور ٹی وی پر سب اچھا ہے کی رٹ جاری رہی۔ یہاں تک کہ اخبارات کیلئے ایسے مضامین لکھے گئے جو سب کنٹرول کے بیانیے کو مظبوطی دیتے رہے۔
تاہم 15 جون کو 20 بھارتی فوجیوں کے چینی فوجیوں کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد بھارت کی عسکری اشرافیہ کو صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ تاہم اب بھی سیاسی قیادت کو صورتحال کی حقیقی سنگینی کا مکمل اندازہ نہ ہوسکا، اور اس کیلئے معاملات تاریکی میں ہی رہے۔ یہاں تک کہ 19 جون کو وزیر خارجہ نے آل پارٹیز اجلاس میں چینی در اندازی کو مسترد کردیا۔ وزارت دفاع نے انٹیلی جنس کے حوالے سے ناکامی کا اعتراف کرنے سے بھی انکار کیا، اور آخر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹیلی ویژن پر قوم کے نام بیان میں گلوان میں چینی در اندازی سے بھی انکار کر ڈالا۔
ہندوستانی صحافی نے اندرونی ذرائع سے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعظم کا یہ بیان این ایس اے اور سی ڈی ایس کے مشورے کی بنیاد پر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے معاملات میں اب وزیر اعظم این ایس اے اور سی ڈی ایس پر مکمل اعتماد کھو چکے ہیں۔ اور یہ صرف ایک ماہ میں ہوا ہے۔ وزیراعظم اب سیاسی شخصیات اور حساس اداروں کے افسران سے مشاورت کر رہے ہیں، جن کے تجزیے اب تک درست ثابت ہوتے رہے تھے۔
اجے شکلا نے دعویٰ کیا ہے کہ ہندوستانی قیادت کو خوف ہے کہ اگر چینیوں نے دیسپانگ اور پنگانگ سے پیچھے ہٹنے سے انکار جاری رکھا، جیسا کہ ممکن دکھائی دے رہا ہے تو وہ بزورطاقت ایک نئی ایل اے سی تشکیل دے دیں گے۔ اس کے نتیجے میں بھارت کئی سو مربع کلو میٹر کے علاقے سے محروم تو ہو گا ہی پر ساتھ ہی ساتھ پر اگر بھارتی قیادت نے یہ شکست بغیر مزاحمت یا بخوشی ہضم کر بھی لی تو یہ محض قومی وقار پر ہی ایک کاری ضرب نہیں ہوگی بلکہ چین کیساتھ ساتھ پاکستان سے تعلقات میں بھی صورتحال بدلے گی اور اسے بین الاقوامی ہزیمت سمجھا جائے گا۔