افغانستان کے لویہ جرگے نے طالبان کے بقیہ 400 قیدیوں کی رہائی کی منظوری دے دی ہے۔
تین دن جاری رہنے والے لویہ جرگے نے جن طالبان قیدیوں کی رہائی کی منظوری دی ہے ان پر غنی انتظامیہ نے سنگین نوعیت کے جرائم کے الزامات لگا رکھے تھے اور انہیں طالبان امریکہ امن معاہدے کے تحت آزاد کرنے سے کترا رہی تھی۔
تاہم ملک بھر سے لویہ جرگے میں شامل 3400 سے زائد قائدین نے متفقہ طور پر تمام 400 قیدیوں کی رہائی کی غیر مشروط منظوری دے دی ہے۔ قرارداد میں طابالن قیدیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ ملک میں امن مسئلے سے متعلق 25 دیگر نکات بھی درج تھے جن میں سے ایک بین الافغان امن مذاکرات کے جلد آغاز کی شق بھی شامل تھی۔
حال ہی میں دیے گئے بیان میں افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق اب تک افغان طالبان نے غنی انتظامیہ کے 898 اہلکاروں کو رہا کیا ہے جبکہ افغان حکومت کی جانب سے اب تک 4170 افغان طالبان قیدی رہائی پا چکے ہیں۔ نھوں نے کہا کہ اگر باقی قیدیوں کو رہا کر دیا جاتا ہے تو بین الافغان مذاکرات جلد شروع ہو سکتے ہیں۔
اس سے پہلے سہیل شاہین نے ایک پیغام میں کہا تھا کہ قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہو جائے پھر عید الاضحٰی کے بعد بین الافغان مذاکرات شروع کیے جا سکتے ہیں۔
گذشتہ ماہ دیے گئے ایک بیان میں افغان طالبان نے امریکہ سے کہا کہ وہ اشرف غنی کو تمام قیدیوں کو رہا کرنے کا پابند کرے، وگرنہ بین الافغان مذاکرات شروع نہیں ہوں گے۔
جس پر غنی انتظامیہ نے مختلف حیلوں بہانوں سے مذاکرات کو تعطل میں ڈالنے کی کوشش جاری رکھی اور بالآخر ممکنہ آخری لویہ جرگے سے طالبان کی مقبولیت میں کمی کا تاثر دینے کی بھونڈی کوشش بھی کر دیکھی تاہم کامیاب نہ ہو سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غنی انتظامیہ آئندہ امریکی انتخابات سے امید وابستہ کیے ہوئے ہے کہ اس میں صدر ٹرمپ کی ناکامی افغان امن معاہدے کو ختم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ تاہم دوسری طرف امریکی صدر ٹرمپ آئندہ انتخابات سے قبل افغانستان سے زیادہ سے زیادہ افواج نکالنے کا وعدہ پورا کرنے کی کوشش میں مشغول نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اشرف غنی کی اپنی اہمیت کو برقرار رکھنے کی ہر کوشش ناکام جا رہی ہے۔