حکومتِ پاکستان نے گذشتہ دنوں پاکستان کا نیا ’سیاسی نقشہ‘ جاری کیا ہے۔ جس پر مقامی سطح پر نئی بحث کے ساتھ ساتھ ہندوستان اور عالمی سطح پر بھی ایک بحث شروع ہو گئی ہے۔
سیاسی نقشے پر انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کو پاکستان کا علاقہ دکھایا گیا ہے اور اس پر یہ تحریر درج ہے کہ ’یہ متنازع علاقہ ہے جس پر انڈیا نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔‘
اس تحریر کے ساتھ ہی یہ بھی درج ہے کہ ’اس (مسئلے) کا تصفیہ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی سفارشات کی روشنی‘ میں ہونا ہے۔
اس نقشے میں گلگت بلتستان کو بھی واضح طور ہر پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
ایک اور علاقہ جس کی تقسیم پر کئی دہائیوں سے تنازع چل رہا ہے وہ سر کریک ہے۔ پاکستان کے صوبہ سندھ اور انڈیا کی ریاست گجرات کے درمیان بہتی یہ ایک ایسی کھاڑی ہے جو بحیرہ عرب میں گرتی ہے۔
تقسیم کے بعد ہی سے مسئلہ یہ چلا آ رہا ہے کہ اس کھاڑی کی کتنی حدود کس ملک کے اندر ہیں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ سر کریک کی کھاڑی پوری اس کی سرحد کے اندر واقع ہے تاہم انڈیا اس دعویٰ کو نہیں مانتا اور یہی وجہ ہے یہاں سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے ماہی گیروں کی کشتیاں پکڑتے رہتے ہیں۔
پاکستان کے نئے سیاسی نقشے میں اس متنازع علاقے علاقے یعنی سر کریک کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
پاکستان نے اس نئے نقشے پر سابق ریاست جونا گڑھ اور مناودر کو بھی اپنا حصہ دکھایا ہے۔ یہ علاقے اب انڈیا کی ریاست گجرات کا حصہ ہیں اور ان کی سرحدیں پاکستان سے نہیں ملتیں۔
سنہ 1948 کے بعد سے یہ علاقہ انڈیا کے پاس ہے اور یہاں ہندو مذہب کا ایک مقدس مقام ’سومنات کا مندر‘ بھی واقع ہے۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ جونا گڑھ اور مناودر ہمیشہ سے اس کا حصہ تھے کیونکہ جونا گڑھ کے راجا نے تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا مگر انڈیا نے بزورِ طاقت اس ریاست پر اپنا قبضہ جما لیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف کا کہنا تھا کہ ’جونا گڑھ ہمیشہ سے پاکستان کا حصہ تھا اور نئے نقشے پر پاکستان نے اس کو اپنا حصہ ظاہر کیا ہے، جس کا مقصد اپنی پوزیشن واضح کرنا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا نئے نقشے میں ’پاکستان نے کوئی نیا علاقہ اپنے علاقے میں شامل نہیں کیا۔ اس علاقے پر انڈیا نے غیر قانونی قبضہ جمایا تھا اور اس پر کوئی تنازع نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ ہمیشہ سے پاکستان کا حصہ ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان ماضی میں بھی جونا گڑھ کو نقشے پر اپنا حصہ دکھاتا رہا ہے تاہم بعد میں کسی وجہ سے پاکستان کے نقشے سے اسے نکال دیا گیا۔ ’ہم اس کو دوبارہ نقشے پر لائے ہیں اور اس کا مقصد اپنے علاقوں کے حوالے سے پاکستان کی پوزیشن واضح کرنا ہے۔‘
نئے سیاسی نقشے نے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں سوالات پیدا کر دیے ہیں۔
کیا صرف ایک نقشے پر جونا گڑھ کو اپنا حصہ ظاہر کرنے سے بین الاقوامی سطح پر وہ پاکستان کا حصہ تصور ہوں گے؟ پاکستان کے اندر شامل علاقوں کا تعین آئینِ پاکستان کا آرٹیکل ایک کرتا ہے۔
اگر یہ ایک آئینی مسئلہ ہے تو کیا نقشے پر موجود علاقوں کی سرحدوں میں تبدیلی مقننہ (پارلیمان) کی طرف کی جانی چاہیے تاکہ وہ پاکستان کا سرکاری مؤقف تصور ہو؟
بین الاقوامی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی کے مطابق ایسا ضروری نہیں ہے۔
آئین کا آرٹیکل ایک پاکستان کے مقامی قوانین کا حصہ ہے لیکن جب کوئی ملک کسی علاقے پر اپنا حق جتاتا ہے یا دعوٰی کرتا ہے تو وہ بین الاقوامی قوانین کے احاطے میں آتا ہے۔
’یہ دعویٰ آپ پارلیمان میں قانون سازی یا قانون میں ترمیم کے ذریعے بھی کر سکتے ہیں، کسی عدالتی فیصلے کے ذریعے بھی کر سکتے ہیں اور ایگزیکیٹیو ایکشن کے ذریعے بھی کر سکتے ہیں۔‘
قانون سازی یا قانون میں ترمیم کے ذریعے کسی علاقے پر اپنا حق ثابت کرنے کی مثال وہ انڈیا کی طرف سے اس صدارتی حکم نامے کی دیتے ہیں جس کے ذریعے گذشتہ برس کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کو ختم کر کے اسے انڈیا میں شامل کیا گیا۔
احمر بلال صوفی کا کہنا تھا کہ نقشے کا جاری کرنا ایگزیکیٹیو ایکشن یا انتظامی عمل کے زمرے میں آتا ہے اور قانونی اعتبار سے اس کی اہمیت ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ریاست نے اپنے انتظامی عمل کے ذریعے کسی علاقے پر اپنا حق جتایا ہے۔
احمر بلال صوفی کے مطابق ’یہ نقشہ پاکستان کے سرویئر جنرل کی تصدیق اور مہر کے ساتھ جاری کیا جاتا ہے اس لیے اس کی قانونی حیثیت ہوتی ہے۔
احمر بلال صوفی کے مطابق پاکستان کے پاس ثبوت الحاق کا وہ قانونی دستاویز ہے جس پر جونا گڑھ کے نواب نے پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے ساتھ دستخط کیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈیا کی طرف سے جونا گڑھ پر غیر قانونی قبضے کے بعد جونا گڑھ کے نواب اپنے خاندان سمیت کراچی منتقل ہو گئے تھے۔
احمر بلال صوفی کے مطابق نواب صاحب کے نواسے اب بھی جونا گڑھ کے نواب کا عہدہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی انھوں نے جونا گڑھ کا وزیرِ اعظم یا سینیئر وزیر بھی مقرر کر رکھا ہے۔
’نواب کے خاندان کو پاکستان کی ریاست کی طرف سے شاہی وظیفہ اب بھی ملتا ہے اور اُن کی حیثیت پاکستان میں جونا گڑھ کے جلاوطن حاکم کی سی ہے۔‘
احمر بلال صوفی کے مطابق جونا گڑھ کو دوبارہ نقشے پر پاکستان کا حصہ دکھانے کا مقصد اس علاقے پر اپنے دعوے کو واضح کرنا ہے۔
احمر بلال صوفی کا کہنا تھا کہ جونا گڑھ اب بھی ایک متنازع علاقہ ہے۔ کچھ عرصہ قبل اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں یہ معاملہ اٹھا بھی تھا لیکن بحث کے بعد بھی اس کا تصفیہ نہیں ہو پایا تھا۔
’دوسرے الفاظ میں جونا گڑھ پر انڈیا کا قبضہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے، اس وقت تک جب تک کہ جونا گڑھ کے نواب کی طرف سے پاکستان کے ساتھ الحاق کے دستاویز میں ترمیم نہ کی جائے۔‘
احمر بلال صوفی کے مطابق الحاق کا دستاویز ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس کو انڈیا مسترد کرتا ہے۔ جونا گڑھ پر قبضے کو اس نے جس قانون کے تحت اپنے یونین علاقوں میں شامل کیا ہے وہ اس کے اندرونی یا مقامی قوانین ہیں۔
پاکستان کی طرف سے نئے سیاسی نقشے کے سامنے آنے کے بعد انڈیا کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان کا طرف سے انڈیا کی ریاستوں گجرات اور اس کے یونین علاقوں کشمیر اور لداخ پر حق ظاہر کرنا سیاسی طور پر ایک بے معنی مشق ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس قسم کے مضحکہ خیز دعوؤں کی نہ تو کوئی قانونی حیثیت ہے اور نہ ہی کوئی بین الاقوامی معتبریت۔‘
بین الاقوامی قوانین کے ماہر احمر بلال صوفی کے مطابق نقشے کو ریاست کی سرکاری پوزیشن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر نقشہ اس کے دعوے کی صداقت کو یقینی بناتا ہے۔
وزیرِاعظم پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی میعد یوسف کے مطابق ’نیا سیاسی نقشہ پاکستان کے مؤقف کو واضح کرنے کے لیے پہلا قدم ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس کے لیے حمایت حاصل کرنا دوسرا قدم ہو گا جس کے لیے ہم کام کر رہے ہیں۔‘
تاہم وہ کیا اقدامات کر رہے ہیں اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ ابھی نہیں بتا سکتے۔ تاہم احمر بلال صوفی کے مطابق بین الاقوامی سطح پر سرویئر جنرل پاکستان کی طرف سے جاری کیا جانے والا نقشہ بذاتِ خود قانونی اہمیت رکھتا ہے۔
’کوئی دوسرا مانے یا نہ مانے، آپ اپنا دعوٰی تو واضح کر دیتے ہیں۔ جب تک آپ کسی علاقے پر اپنی پوزیشن واضح ہی نہیں کریں گے تو بات آگے کیسے چلے گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ریاستوں کے درمیان علاقوں کے تنازعات پر بات چیت کے دوران نقشوں ہی کی اہمیت ہوتی ہے۔
مصنف اور مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ اگر دستاویزی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ درست ہے کہ جونا گڑھ پر انڈیا نے طاقت کے زور پر قبضہ کیا جو کہ غیر قانونی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نو آبادیاتی حکمرانوں کا فرض تھا کہ وہ جونا گڑھ جیسی ریاستوں کا تصفیہ کر کے نکلتے۔
’اصول بھی یہی تھا کہ نواب جہاں جائے گا، ریاست بھی ادھر جائے گی لیکن انڈیا نے اس کی خلاف ورزی جونا گڑھ، کشمیر اور حیدرآباد کی ریاستوں پر قبضے کے ذریعے کی۔‘
پاکستان نے بھی ہندوستانی رستے پر چلتے ہوئے متنازعہ علاقوں کو اپنے نقشے میں شامل تو کر لیا ہے تاہم قبضہ طاقتور ہندوستان کے پاس ہونے کی وجہ سے اسکا عالمی بحث کے علاوہ کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ یا مستقبل میں اس بنیاد پر پاکستان ہندوستان کے لیے عالمی تنظیموں میں مسائل پیدا کر سکتا ہے۔