چند روز قبل اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین ایک اہم معاہدہ طے پایا ہے، جس کے مطابق اسرائیل مغربی کنارے کے بڑے حصوں کا الحاق روک دے گا اور متحدہ عرب امارات اسرائیل کو بطور ریاست قبول کرتے ہوئے صہیونی ریاست سے سفارتی تعلقات کا آغاز کر دے گا۔
گزشتہ 72 سال سے اسرائیل کے خلیج کے کسی بھی عرب ممالک سے سفارتی تعلقات نہیں تھے، اور محض چند مسلم ممالک جن میں ترکی، اردن اور مصر شامل ہیں، نے اسرائیل کو بطور ریاست قبول کیا ہوا تھا۔
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین ہونے والے معاہدے سے فلسطینی رہنما نہ صرف ناراض ہیں بلکہ حیران بھی ہیں۔ صدر محمود عباس نے عرب لیگ کا فوری اجلاس بلانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے خدشات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے بعد دیگر خلیجی ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ روابط بنا سکتے ہیں، جس سے ’عرب امن معاہدے‘ پربھی اثرپڑے گا۔
دوسری طرف متحدہ عرب امارات کے اس فیصلے پر دیگر اسلامی ممالک کا ابتدائی ردعمل، بشمول ترکی کے حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ اگرچہ ترکی نے 1948 سے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے تاہم ترک صدر کے شدید ردعمل پر اماراتی وزیر خارجہ انور گرگش نے کہا ہے کہ ترکی کے تو اسرائیل کے ساتھ گہرے تجارتی تعلقات ہیں۔ ہر سال پانچ لاکھ اسرائیلی سیاح ترکی آتے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین دو ارب ڈالر کا کاروبار ہے اور اسرائیل میں ترکی کا اپنا سفارت خانہ بھی ہے، اور اب میں پوچھتا ہوں کہ کیا ترکی کا یہ منافقانہ رویہ درست ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدے کے تحت اسرائیل مغربی کنارے کے علاقے پر قبضہ کرنے کے اپنے منصوبے کو معطل کررہا ہے۔ ہمیں اسرائیلی قبضے کے معاملے پر بہت تشویش ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہم نے کم از کم کچھ وقت حاصل کر لیا ہے جس میں فلسطینی قیادت اسرائیلیوں سے مذاکرات کر سکتے ہیں۔
دوسری طرف مصر اور اردن کی حکومتوں نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، پرعوامی سطح پر وہاں بھی شدید ناراضگی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں ہونے والی یہ پیش رفت صرف خطے یا خلیجی ممالک کو ہی متاثر نہیں کرے گی بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک کے مابین تعلقات کو بھی اس کے اثرات اپنی لپیٹ میں لیں گے، جن میں ہندوستان اور پاکستان بھی شامل ہیں۔
اس نئے معاہدے کے نتیجے یا بہانے سے عالم اسلام، خصوصاً سنی ممالک میں جاری نئی تقسیم بالکل واضح ہو جائے گی۔ اس سے قبل مسلم ممالک کسی حد تک سنی اور شیعہ کی تفریق میں سعودی عرب اور ایران کی قیادت میں منقسم تھے پر اب سنی گروہ دو گرووں میں تقسیم ہو جائے گا، اور شیعہ گروہ ایران کے زیر سایہ مزید تقویت پکڑے گا۔
سنی اتحاد سے نکلنے والا نیا گروہ عسکری لحاظ سے دوسرے گروہ کی نسبت زیادہ مظبوط ہے، جس میں پاکستان، ترکی، قطر اور ملائیشیا کے ساتھ مستقبل میں مزید ممالک بھی مل سکتے ہیں۔
اس گروہ کو ابھارنے میں ایران کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا، جس نے گزشتہ دو دہائیوں میں مشرق وسطیٰ میں مختلف عسکری گروہوں کی مدد سے خطے میں جہاں بے امنی کو طول دیا ہے، وہاں سیاسی گروہوں کی مدد سے خانہ جنگی سے محفوظ ممالک میں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھایا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال میں بلاشبہ عرب بادشاہوں کی ناقص حکمت عملیاں بھی شامل تھیں تاہم بظاہر یوں لگتا ہے کہ بالآخر ایران سنی گروہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ ایران کی اس جیت کا اعلان کوالالمپور سمٹ کی کامیابی میں چھپا تھا، تاہم پاکستان کی مسلم گروہوں کے مابین غیرجانبداری کی پالیسی یا سعودی عرب کے ساتھ تاریخی تعلقات اس میں آڑے آگئے۔
خلیجی بادشاہوں کی اپنی حکومتوں کے تحفظ کو لے کر پریشانی اور دیگر مسلم ممالک کی اندرونی سیاست میں تبدیلیوں کی مجموعی بگڑتی صورتحال نے انہیں اس ملک کی طرف جھکنے پر مجبور کر دیا ہے جسے وہ ازلی دشمن قرار دیتے رہے ہیں، اور اس کے ساتھ متعدد چھوٹی بڑی، انفرادی یا متحد جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔
صہیونی ریاست کو زیر نہ کر سکنے کے بعد ایران کا رستہ روکنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ اتحاد کی حکمت عملی سے عرب بادشاہتوں کو فائدہ ہو گا یا تنزلی کا سفر مزید تیز ہو گا، اس سوال کا جواب تاریخ کے اوراق میں موجود ہے، یا آنے والا وقت بھی اسے واضح کردے گا، تاہم خلیجی ممالک کے اس نئے غیرفطری علاقائی اتحاد سے ان کے دنیا میں دیگر غیرمسلم ممالک کے ساتھ تعلقات پر بھی واضح اثر پڑنے والا ہے۔ مثلاً ہندوستان کے اسرائیل کے ساتھ پرانے اور اچھے تعلقات کی وجہ سے اور پاکستان کے نئے گروہ میں جانے کی وجہ سے بھی ہندوستان کو پرانے دوستوں کی ناراضگی مول لیے بغیر خلیجی ممالک میں اثرورسوخ بڑھانے میں آسانی ہو گی۔
اس کے علاوہ اسرائیل کے ساتھ خلیجی ممالک کے تعلقات استوار ہونے پر ہندوستان مشرق وسطیٰ میں جنوبی ایشیا کا بلا مقابلہ نمائندہ بن جائے گا۔ ہندوستان آبادی کی کھپت سے معاشی فائدے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں خطے کی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں سے بھی بھرپور فائدہ اٹھانے کے قابل ہو گا۔ دوسری طرف پاکستانی گروہ کا کوئی بھی ملک پاکستان کو ایسی کوئی بھی سہولت دینے سے قاصرہے، بلکہ یہ تمام ممالک تقریباً ایک جیسی پیدوار اور برآمدات کرنے والے ممالک ہیں، یعنی صورتحال اتحاد کو تقویت دینے کے بجائے مفادات کے ٹکراؤ کا باعث بن سکتی ہے۔ جو مستقل قریب میں ہندوستان کی پاکستان کو تنہا کرنے کی پالیسی میں مزید تقویت کا باعث بھی ہوگی۔
قصہ مختصر یہ کہ صورتحال سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہو گا، جس کے خلیجی ممالک کے ساتھ تاریخی تذویراتی تعلقات متاثر ہوں گے۔ خلیجی ممالک خصوصاً سعودی عرب ایٹمی اور دیگر عسکری منصوبوں میں پاکستان کی نہ صرف مدد کرتے رہے ہیں بلکہ ملک میں انکی سرمایہ کاری اور ضرورت کے وقت معاشی تحفظ کی سہولت سے بھی پاکستان محروم ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ پچاس لاکھ سے زائد تارکین وطن کی صورت میں آنے والی ترسیلات زر کا سلسلہ متاثر ہونے کا خدشہ بھی موجود ہے۔ اور تو اور تہذیبی تعلق میں کمزوری سے نظریہ پاکستان پر اثر پڑے گا اور خطے میں ہندوستانی بیانیے کو تقویت ملے گی۔
اس میں شک نہیں کہ جوہری قوت ہونے کے باعث نئے گروہ میں بھی پاکستان کی اہمیت ہو گی، جبکہ روس کے ساتھ تعلقات میں مثبت پیش رفت اور مغربی ممالک کے ساتھ براہ راست کشیدگی میں جائے بغیر چین سے تعلقات کو کامیابی سے بڑھا پانے کی وجہ سے بھی پاکستان کا سفارتی محاذوں پر حوصلہ بڑھا ہے۔ اس کے علاوہ سلامتی کونسل میں مختلف مواقع پر چین کی مستقل رکنیت سے فائدہ اٹھانے کے اعتماد نے بھی پاکستان کو بین الاقوامی تنازعات میں تحفظ کا احساس دیا ہے تاہم غیر مسلم ممالک پر اس بڑھتے انحصار کا اثر پاکستان کی تہذیب اور نظریاتی بنیادوں پر بھی پڑے گا، جو جنوبی ایشیا میں اس کے وجود اور سالمیت پر شدید اثرات مرتب کرے گا۔
اس سب کے ساتھ ساتھ دنیا میں جاری نئی گروہ بندی کے دوران پرانے اتحادی بدلنے سے، پاکستان اپنے اٹھائے اقدامات کے علاوہ ہندوستان کے لیے جو رستہ کھولے گا، اس کے نتائج کا خمیازہ بھی پاکستان کو بھگتنا پڑے گا۔ اس نئے اتحاد کے نتیجے میں ہندوستان کامیابی سے امریکہ، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور ایسے بڑے اور امیر ممالک کے ساتھ شامل ہونے سے خطے میں پاکستان کے لیے مسائل بڑھا دے گا۔
دفاعی سازوسامان کی درآمدات کے حوالے سے خلیجی ممالک بڑی منڈی ہیں، اور یہ منڈی مغربی ممالک کے علاوہ صرف ہندوستان اور اسرائیل کے لیے قابل رسائی بن جائے گی۔ یعنی پاکستان جے ایف17 سے لے کردیگر تیار کردہ جدید آلات کو بھی بیچنے میں دشواری یا نئے خریداروں کی تلاش میں تگ و دو کا سامنا کرے گا۔