سعودی عرب نے فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدے تک اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا امکان مسترد کر دیا۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے برلن میں جرمن ہم منصب ہیکو ماس کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی معاہدوں کی بنیاد پر فلسطینیوں کے ساتھ امن کاقیام اسرائیل کیساتھ معمول کے تعلقات کی اولین شرط ہے۔ اگراسرائیل ایسا کرتا ہے تو پھر سوچا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے الحاق کی یکطرفہ اسرائیلی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہمغربی کنارے پر فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر غیرقانونی اور دو ریاستی حل کی کوششوں کیلئے نقصان دہ ہے، اسرائیل کے ایسے اقدامات امن کے مواقع میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے دو ٹوک کہا کہ فلسطینیوں کو حقوق دلائے جائیں، ہم اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے متحدہ عرب امارات کی پیروی نہیں کریں گے۔
جب تک اسرائیل فلسطین کے ساتھ امن معاہدہ نہیں کرتا اسے تسلیم نہیں کریں گے، شہزادہ فیصل بن فرحان نے ایک سوال پر کہا سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کیلئے 2002 میں عرب امن اقدامات کی سرپرستی کی تھی، اب فلسطینی امن معاہدے کے بغیر ہمارے لئے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ممکن نہیں۔
اس موقع پر سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے خارجہ عادل الجبیر نے بھی سعودی موقف کو دوہراتے ہوئے کہا کہ جب تک اسرائیل فلسطینیوں کیساتھ عالمی سطح پر تسلیم شدہ امن معاہدے پر دستخط نہیں کرتا، تب تک اس کیساتھ سفارتی روابط قائم کرنا مملکت کیلئے ممکن نہیں، تاہم فلسطینیوں کیلئے امن کا حصول یقینی بنائے جانے کے بعد سوچا جا سکتا ہے۔
اس دوران وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے لیبیا بحران پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب برلن کانفرنس کے مقرر کردہ اصولوں اور قاہرہ امن فارمولے کا حامی ہے۔ انہوں نے کہا ایران حوثی باغیوں کو اسلحہ دے رہا ہے۔ انکی جرمن ہم منصب سے ایران پر اسلحے کی پابندی میں توسیع کی ضرورت پر گفتگو ہوئی ہے، اور ہم نے ایک بار پھر عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ ایران پر عائد ہتھیاروں کی پابندی میں توسیع کی جائے، سعودی وزیر خارجہ نے باور کرایا کہ ایران پر عائد روایتی یا غیرروایتی ہتھیاروں کی پابندی اٹھانے کے نتیجے میں مزید تباہی اور بربادی سامنے آئے گی۔