نیوزی لینڈ کی مساجد میں گزشتہ برس کیے گئے حملوں کے مقدمے کی سماعت شروع کر دی گئی ہے۔ مساجد پر حملوں میں ملوث آسٹریلوی شہری، ملزم برینٹن ٹیرنٹ کو سماعت کیلئے کرائسٹ چرچ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
پولیس نے ملزم کو قیدیوں کے لباس میں عدالت میں پیش کیا تاہم ملزم سماعت کے دوران ملزم خاموش رہا۔ دوران سماعت پولیس نے انکشاف کیا کہ ملزم برینٹن ٹیرنٹ تیسری مسجد کو بھی نشانہ بنانا چاہتا تھا، اس کے علاوہ مساجد کو آگ لگانا اور جتنا ممکن ہوسکے لوگوں کو قتل کرنا ملزم کے اہداف میں شامل تھا۔
تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم نے حالیہ برسوں میں حملوں کی منصوبہ بندی شروع کی اور اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ تباہی پھیلانا تھا۔ ملزم نے نیوزی لینڈ میں مساجد کی معلومات جمع کیں جن میں مساجد سے متعلق تمام معلومات لیں، ان کا مقام، منزلوں کی تفصیل اور دیگر تمام تفصیلات شامل تھیں، جب کہ ملزم کا مقصد لوگوں کو اس وقت نشانہ بنانا تھا جب وہ عبادت میں مصروف ہوں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ حملوں سے چند مہینے قبل ملزم کرائسٹ چرچ گیا جہاں اس نے اپنے پہلے ہدف النور مسجد پر ڈرون اڑایا، ملزم نے ایشبرٹن مسجد اور لائن ووڈ اسلامک سینٹر کو بھی نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا۔ رپورٹ کے مطابق ملزم نے مساجد پر حملے سے قبل گلی میں موجود لوگوں پر فائرنگ کی جنہوں نے جان بچانے کے لیے مسجد کی طرف رخ کیا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم نے گرفتاری کے دوران بتایا ہے کہ مساجد پر حملوں کے بعد انہیں آگ لگانا بھی اس کی منصوبہ بندی میں شامل تھا۔
نیوزی لینڈ کے ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ملزم کو 51 قتل، 40 اقدام قتل اور دہشت گردی کے الزام میں بغیر کسی پرول کے عمر قید کی سزا کے مقدمے کا سامنا ہے۔ یعنی اسے کم از کم 17 سال کی سزا ہوسکتی ہے البتہ کیس کی سماعت کرنے والے جج کے پاس یہ اختیار ہو گا کہ وہ ملزم کو بغیر پرول کے عمر بھر کے لیے جیل میں قید رکھنے کی سزا سنا سکیں۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے کہ تو یہ سزا نیوزی لینڈ کی تاریخ کی سب سے زیادہ سزا ہو گی۔
واضح رہے کہ 15 مارچ 2019 کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد پر نماز جمعہ کے دوران حملے کیے گئے جس میں ملزم آسٹریلوی شہری نے دو مسجدوں میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 50 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔
اس دوران دہشت گرد اس حملے کی ویڈیو اپنے ہیلمٹ پر لگے کیمرے سے سوشل میڈیا پر لائیو ٹیلی کاسٹ کرتا تھا۔
ان حملوں کے وقت بنگلا دیش کی کرکٹ ٹیم بھی کرائسٹ چرچ میں موجود تھی جو اس حملے میں محفوظ رہی تاہم حملوں میں 9 پاکستانی شہری جاں بحق ہوئے۔