Shadow
سرخیاں
پولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئےیورپی کمیشن صدر نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر جوہری حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دے دیااگر خطے میں کوئی بھی ملک جوہری قوت بنتا ہے تو سعودیہ بھی مجبور ہو گا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرے: محمد بن سلمان

اوبور: 71 ملکوں پر محیط چینی منصوبہ کیا کر سکتا ہے؟

چین کا ون بیلٹ ون روڈ یعنی اوبور منصوبہ، دنیا کے چار بڑے اور اہم براعظموں، ایشیا، یورپ، افریقہ اور جنوبی امریکہ کو بہترین مواصلاتی نظام سے جوڑنے والا ترقیاتی منصوبہ ہے، جس میں شامل سڑکوں کے جال اور سمندری گزرگاہوں سے دنیا کی شرح نمو میں ایک تہائی سے زیادہ اضافہ ہو گا۔ منصوبے سے دنیا کی دو تہائی آبادی ایک دوسرے سے براہ راست جڑ جائے گی، جبکہ اسکے سیاسی و معاشی اثرات نے آغاز سے ہی مغربی طاقتوں کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔

اوبور منصوبے کا خاکہ

منصوبے سے جب دنیا کے 71 ممالک ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جائیں گے، تجارتی رستے ہموار ہو جائیں گے تو نتیجتاً دنیا پر مغربی خصوصاً امریکی اجارہ داری کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ منصوبہ موجودہ عالمی انتظامی اور معاشی نظام کو بلا شبہ درہم برہم کر دے گا۔ منصوبہ دنیا بھر پر مسلط مالیاتی اداروں کے اثر و رسوخ کو بھی کم کرتے کرتے بالآخر ختم کردے گا۔ جبکہ اوبور کا کامیابی سے قیام مستقبل قریب میں امریکی ڈالر کو عالمی کرنسی کی حیثیت سے ہٹا کر کسی مشترکہ کرنسی کو مرکزی کھلاڑی بنانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مغربی مفکرین اپنے عسکری و سیاسی اداروں کو منصوبے کے اثرات سے خوف میں مبتلا کیے ہوئے ہیں اور مجموعی طور پر ان طاقتوں نے منصوبے اور چین کے خلاف دنیا بھر میں پراپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے۔ دنیا بھر میں چین کو جدید طرز کی نوآبادیاتی ریاست کے طور پر بدنام کیا جا رہا ہے، جبکہ منصوبے سے متعلق منفی معلومات کا پرچار بھی زوروشور سے جاری ہے۔ جن حکومتوں نے چین کے ساتھ منصوبوں پر دستخط کیے، وہاں سیاسی کشمکش کے روائیتی انداز سے حکومتوں کو گرایا اور بدلا جارہا ہے۔ اردو قارئین کے لیے قابل ذکر پاکستان اور ملائیشیا ہیں، جہاں ماضی قریب میں ایسا کامیابی سے ہو چکا ہے، جبکہ تبدیلیوں کا سلسلہ افریقہ میں اب بھی جاری ہے۔

مداخلت کے اس عمل نے بلا شبہ چینی حکومت کے لیے منصوبے کو مکمل کرنے کی راہ میں مسائل پیدا کیے ہیں، جس کے نتیجے میں بیشتر ممالک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ضائع اور کچھ میں ضائع ہوتی نظر آرہی ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق براعظم ایشیا میں 2030 تک مختلف ضروری مواصلاتی بنیادی ڈھانچوں کو تعمیر کرنے کے لیے 26 کھرب ڈالر چاہیے ہیں۔ ان بڑھتی ہوئی مواصلاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایشیا میں مختلف علاقائی تعاون کی تنظیموں نے اپنے درمیان سڑکوں کے رابطے بڑھانے کے لیے کئی منصوبوں کی ابتدا کی ہے جس میں اوبور سب سے بڑا منصوبہ ہے۔

مغربی ممالک اور چین کے دنیا کے لیے آئندہ صدی میں رویے کی عکاسی کرتا کارٹون

اوبور میں کیا ہو گا؟

اوبور تعاون کے پانچ بنیادی اصولوں پر کام کرے گا۔ اس میں 71 شریک ممالک میں پالیسی کی سطح پر تعاون شامل ہو گا۔ جس سے یہ ممالک مواصلاتی رابطوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے ایک مشترکہ پالیسی بنائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر میں ان ممالک کے آپسی رابطوں کو بھی پروان چڑھایا جائے گا۔ جبکہ تکنیکی نظام میں رکاوٹوں کو کم از کم کرنے کے لیے بھی معیار طے کیے جائیں گے۔ اس سب کے نتیجے میں کھلی اور بغیر کسی رکاوٹ کے تجارت ہوگی۔

تمام شریک ممالک مشترکہ مالیاتی پالیسیاں بنائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ مالیاتی اداروں کی تشکیل بھی ہوگی، تاکہ پیسے کی قدر و قیمت میں کمی یا بڑھنے سے کسی ایک فریق کو نقصان نہ پہنچے۔ اور آخر میں لوگوں کے درمیان ثقافتی، تعلیمی اور نشریاتی رابطوں میں بھی تعاون بڑھایا جائے گا۔

ان تمام منصوبوں کی سرمایہ کاری مختلف چینی سرکاری اور نجی بینک اور مالیاتی ادارے کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ کچھ منصوبوں پر سرمایہ کاری میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے جیسے ایشیائی ترقیاتی بینک اور ایشیا انفراسٹرکچر بینک بھی شامل ہیں۔ ایک ابتدائی تخمینے کے مطابق اس منصوبے پر تقریبا چار سے آٹھ کھرب ڈالرز خرچ ہوں گے اور ایک اندازے کے مطابق چین اب تک اس منصوبے پر 250 ارب ڈالرز سے زیادہ خرچ کر چکا ہے۔

منصوبے سے چین کو اپنی معاشی ترقی مزید تیز ہونے کی امید ہے۔ جو اسکی علاقائی اور بین الاقوامی اہمیت کو بڑھائے گی اور اسے دنیا میں اپنا جائز مقام حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ امریکہ سے بڑھتے ہوئے تجارتی تنازع اور پابندیوں کے باعث چین کو کم ہوتی ہوئی شرح نمو سے نمٹنا ہے۔ جس کا حل نئی منڈیوں کی تلاش ہے، جو یہ منصوبہ بہتر انداز میں مہیا کر سکتا ہے۔

منصوبے سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے کام کرنے کے انداز اور ان کے مالیاتی منصوبوں پر بھی اثر ہوگا۔ اور چین عالمی سطح پر زوردار طریقے سے اپنی موجودگی کا احساس دلائے گا۔

اس سب کے علاوہ منصوبہ چین کے مغربی علاقوں کو قومی دھاڑے میں شامل کرنے میں بھی مدد کرے گا۔

منصوبے سے موجودہ مغربی استعماری ڈھانچہ خطرے میں ہے۔ جس کے باعث منصوبے کے خلاف پروپیگینڈا تیز کر دیا گیا ہے۔ مغربی مالیاتی ادارے اوبور کے تحت دی جانے والی امداد کو زہر کے پیالے سے تعبیر دے رہے ہیں، اور غریب ممالک کو بھونڈے پراپیگنڈے سے ڈرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ چینی منصوبے مفت نہیں قرضوں پر مبنی ہیں۔ جیسے مغربی ممالک کے مالیاتی ادارے ترقیاتی منصوبوں کے لیے قرضے نہیں مفت کی مدد کرتے ہوں۔

پراپیگنڈے کی وجہ سے 2018 کے اواخر میں اوبور کے منصوبوں میں سست روی دیکھنے میں آئی تاہم 2019 میں پھر سے ان میں قدرے بہتری ہوئی۔ کئی ممالک میں منسلک منصوبوں سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔ جس سے اب تک 102 ارب ڈالر کا نقصان دیکھنے میں آیا ہے۔ واحد سری لنکا میں تیار کردہ بندرگاہ سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ 340 ملین ڈالر سے زیادہ ہے۔

بی آر آئی ایک بہت بڑا منصوبہ ہے اور اس کی کامیابی سے دنیا کا معاشی، مالیاتی اور سیاسی نقشہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ عالمی نظام اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور چین کو باآسانی انکی حیثیت کو ختم کرنے نہیں دے گا۔

پاکستان میں بھی عمران خان کے دور حکومت میں منصوبے کے سی پیک پر کام میں سست روی دیکھی گئی ہے، جبکہ اس کے خلاف پراپیگنڈہ بھی عروج پر ہے۔ اسے علاقائی تقسیم اور لسانی تقسیم کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ جبکہ اگر دیکھا جائے تو 2015 سے 2018 تک منصوبے کی وجہ سے ہماری قومی شرح نمو میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ملک بھر میں مواصلات کے نظام میں بہتری آئی ہے اور توانائی کے بحران کو قابو کرنے میں بھی نمایاں مدد ملی۔

پاکستانی اشرافیہ حالیہ قومی ریاست کے قیام کے پہلے سے ہی کسی بھی قسم کی اجارہ داری کے خلاف مظبوط کردار رہی ہے۔ خطے میں برہمن تسلط سے آزادی کی جدوجہد ہو یا مغرب میں ابھرتے سوویت یونین کے خلاف تحریک، خطے کے امن کے لیے ان کا فیصلہ کن کردار تحریکوں کو قوت اور اعتماد بخشتا رہا ہے۔ حالیہ عالمی تناظر میں مغربی اجارہ داری کے خلاف بننے والے اتحاد کی شورش بھی کچھ ایسی ہی تاریخ رقم کرنے کی امید لیے ہوئے ہے۔

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

11 − five =

Contact Us