دنیا بھر کے مسلمان شاید صرف ایک مسجد قبلتین (دو قبلے والی مسجد) کو ہی جانتے ہوں، جو سعودی عرب کے شہر مدینہ المنورہ میں ہے۔ تاہم مشرقی افریقی ملک صومالیہ میں بھی دو محرابوں والی ایک مسجد کے کچھ اثار موجود ہے، جس کے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ بھی مسجد قبلتین تھی۔
روایت کے مطابق صومالیہ کی مسجد قبلتین ان صحابیوں کی تعیر کردہ تھی جنہیں کفار مکہ کے مظالم سے بچنے کے لیے حضرت محمد ﷺ نے حبشہ کی جانب ہجرت کر جانے کا حکم دیا تھا۔ اس وقت مسلمان مسجد اقصیٰ، بیت المقدس کے رخ نماز ادا کرتے تھے تاہم بعد میں حکم ربی کے تحت قبلہ مکہ المکرمہ، میں خانہ کعبہ کے رخ کر دیا گیا۔ یوں صومالیہ کے شہر ژیلا کی مسجد کا قبلہ بھی تبدیل ہوا اور اس مسجد کو بھی قبلتین کا نایاب نام مل گیا۔ یاد رہے کہ اس مسجد کو افریقہ کی پہلی مسجد ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
مدینہ میں موجود مسجد قبلتین تو آج بھی قائم و دائم ہے اور اس کی حفاظت کے ساتھ ساتھ تعمیر نوع بھی ہوتی رہی ہے تاہم صومالیہ کے شہر ژیلا میں تعمیر کردہ ساتویں صدی عیسوی کی مسجد قبلتین کے اثار تک اب ناپید ہونے کے قریب ہیں۔
مسجد اس حال میں کیسے پہنچی؟
ء1882 میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کر لیا، جس کے بعد خلیج عدن میں یورپی بحری جہازوں پر حملوں میں اضافہ ہو گیا، ژیلا کے ساحلوں کو محفوظ بنائے بغیر خلیج عدن کی راہداری کو محفوظ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اور مصر پر حملے کی برطانوی وجہ بھی نہر سویز یعنی تجارتی و تذویراتی راہداری کو اپنے کنٹرول میں کرنا تھا۔ یوں موجودہ صومالیہ کے شمال ساحلی شہر ژیلا پر کنٹرول حاصل کیے بغیر بھی برطانیہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوپاتا۔ جس کے لیے برطانیہ نے 1888 میں سلطنت عثمانیہ کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ژیلا شہر کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
صومالیہ کی مسجد قبلتین کے آثار بتاتے ہیں کہ یہی وہ زمانہ تھا جب اس تاریخی مسجد کی نگہداشت نہ کی جا سکی، اور آج اس کے آثار بھی ناپید ہونے کے قریب ہیں۔ 1960 میں صومالیہ تو آزاد ہو گیا تاہم تاحال نہ تو ملکی انتظامیہ اور کسی دوسرے مسلم ملک کو اس تاریخی ورثے کو محفوظ کرنے کا خیال آیا ہے۔