بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ تاریخی واقعات کی ہماہمی اور تواتر میں کچھ ایسے الفاظ اُن اقوام کے زبان و اَدب کا لاشعوری طور پر حصّہ بن جاتے ہیں جو اُن کے خلاف ایک منصوبے کے تحت وضع کیے گئے تھے۔ اِس کی واضح ترین مثال’ ’بربریت‘‘ کا لفظ ہے جو ہمارے ہاں درندگی اور بہیمیت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
آج کل اخبارات و جرائد اِس لفظ سے بھرے ہوتے ہیں۔ میں جس وقت بھی لفظ ’’بربریت‘‘ سنتا یا پڑھتا ہوں، تو مجھے گہرا ملال ہوتا ہے اور میرا ذہن اُن بربر قبائل کی طرف جاتا ہے جو بڑے بہادر اَور جنگجو تھے اور یورپ کی سرزمین پر مسلم ہسپانیہ کی سلطنت کے معمار تھے۔ میرے اندر جستجو پیدا ہوئی کہ اِس لفظ کے ماخذ اور تاریخی پس منظر کا سراغ لگایا جائے۔
میں نے پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری سے رابطہ قائم کیا جو عربی ادب کے علاوہ یورپ کی مختلف زبانوں کے مزاج کا گہرا علم رکھتے ہیں۔ جناب سجاد میر سے بھی گفتگو کی جو اُردو اَور انگریزی ادب کے شناور ہیں۔ حیرت انگیز معلومات کا ایک دبستاں کھل گیا۔ میرے پوتے ایقان قریشی نے بھی لسانیات کے بعض نکات واضح کیے۔ دراصل یونانی زبان میں ‘Barbarian’ کا لفظ اُن تمام غیر ملکیوں کے لیے استعمال ہوتا رہا جو غیر عیسائی تھے۔
بعدازاں اِس زمرے میں وہ جرمن قبائل بھی شامل کر لیے گئے جو روم اَور یونان کو باربار تاراج کرتے رہے تھے۔ آگے چل کر بربر قبائل بھی ہدف بنے جو یورپ کی ایک وسیع و عریض مسلم سلطنت کے محافظ تھے۔ عیسائیوں کی یہ کوشش رہی کہ مسلمان یورپ میں داخل نہ ہونے پائیں ، مگر 91ہجری کے لگ بھگ ایک طرف محمد بن قاسم قزاقوں کی سرکوبی کے لیے ہندوستان بھیجے گئے اور دُوسری طرف طارق بن زیاد نے بحرِقلزم کا رخ کیا۔ اِس مہم سے کوئی پچاس برس پہلے ’’مغرب‘ ‘یعنی تیونس، الجزائر اور مراکش مسلم سلطنت میں شامل ہو چکے تھے۔ خلیفۂ دوم حضرت عمرؓ کے زمانے میں حضرت عمرو بن عاصؓ نے مصر فتح کیا اور وَہاں کے گورنر مقرر ہوئے۔ اُنہوں نے اپنے خالہ زاد بھائی عقبیٰ بن نا فع کو دس ہزار فوج دے کر افریقہ میں ’’مغرب‘‘ کی طرف بھیجا۔ اُنہوں نے بحرِاوقیانوس تک سارے ممالک فتح کر لیے جہاں بربر قبائل آباد تھے۔ اُنہوں نے تیونس میں قیروان شہر آباد کیا جہاں ایک مدت سے جامعہ الازہر کے معیار کی جامعۃ الزیتون مرجع خلائق بنی ہوئی ہے۔
طارق بن زیاد اَپنے لشکر کے ساتھ مراکش کے شمال میں اس مقام پر پہنچے جہاں سے ہسپانیہ کی سرزمین صرف نو میل کے فاصلے پر تھی۔ اُن کی فوج میں بربر بہت بڑی تعداد میں تھے۔ یہ میری بڑی خوش قسمتی ہے کہ مجھے وہ تاریخی مقام دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ مَیں لندن میں تھا تو یہ اعلان سنا کہ عرب لیگ کا ایک اہم سربراہ اجلاس مراکش میں ہو رہا ہے۔
جناب الطاف گوہر کی معاونت سے میں رباط پہنچا اور رَات بھر سفر کر کے اُس جگہ پہنچ گیا جہاں عرب لیگ کا اجلاس ہو رہا تھا۔ فراغت کے بعد منتظمین نے بتایا کہ یہ وہی مقام ہے جہاں سے طارق بن زیاد نے بحرِقلزم عبور کیا تھا اور وَہاں خشکی پر اُتر کر کشتیاں جلا دی تھیں اور فوج سے ایک انتہائی مؤثر خطاب کیا تھا: ’’سمندر ہمارے پیچھے ہے اور دُشمن سامنے۔ اگر تم ذرا صبر اور ہمت سے کام لو، تو تمہاری نسلیں صدیوں تک اِس علاقے پر حکمرانی کریں گی اور اِسلام کی تہذیبی شان و شوکت جلوہ گر ہو گی۔‘‘ پھر ایسا ہی ہوا۔ طارق بن زیاد نے اسپین فتح کر لیا اور مسلمانوں نے ہسپانیہ کو علم و فضل اور علوم و فنون کا گہوارا اُس وقت بنایا جب پورا یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔
بربر قبائل حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے، تو اُن کی زندگیوں میں زبردست انقلاب آیا۔ امام غزالیؒ کا تعلق بربر قبیلے ہی سے تھا۔ امام غزالیؒ نے انسانی تہذیب میں جو قابلِ رشک اضافہ کیا ہے، اس کا اعتراف مغربی اسکالر بھی کرتے ہیں۔ اِسی طرح ابنِ خلدون بھی بربر تھے جو فلسفہ اور تاریخ کے امام تسلیم کیے جاتے ہیں۔ دنیا کے بہترین جرنیل یوسف بن تاشفین کا تعلق بھی بربر قبیلے سے تھا۔ اندلس کے حکمران جن پر یورپ کے عیسائی چڑھائی کرتے رہتے تھے، وہ یوسف بن تاشفین کو مدد کے لیے پکارتے اور وَہ لشکر کے ساتھ آتے اور عیسائیوں کی خوب خبر لیتے ۔ اُن کی سرفروشی اور مردانگی سے خائف ہو کر عیسائی مصنفین نے Barbarian لفظ کا اطلاق بربر قبیلے پر پورے شدومد سے کیا۔ یہ لفظ یونانی سے اطالوی اور اَنگریزی زبانوں میں منتقل ہونے لگا جس کے بعد اُردو زبان میں ’’بربریت‘‘ کا لفظ بھی کثرت سے برتا جانے لگا۔
مجھے رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ بربر قبائل جن کی قربانیوں، سخت کوشیوں اور بےپایاں جنوں خیزیوں سے اسلام کی شان و شوکت کا سورج یورپ پر طلوع ہوا اَور جن کے اندر اِسلام کے عظیم الشان مفکر، فلسفی، سائنس دان اور سپہ سالار پیدا ہوئے، ہم ’’بربریت‘‘ کا لفظ استعمال کر کے کہیں اُن کی شان میں گستاخی کا ارتکاب تو نہیں کر رہے۔
ہمارے اربابِ علم و فضل کو اِس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ آیا ہم اِس لفظ کا استعمال فوری طور پر ترک کر سکتے ہیں۔ زبانوں میں الفاظ متروک ہوتے رہتے ہیں۔ ہماری اسلامی حمیت کا اوّلین تقاضا ہے کہ جس لفظ میں اہانت کا ذرہ برابر بھی احتمال پایا جاتا ہو، اسے بول چال اور لغت ہی سے خارج کر دیں، کیونکہ ’’بربریت‘‘ میں بربر کا جزو بہت نمایاں ہے۔ اِس کا استعمال ہمارے دینی شعور کو چرکے لگاتا ہے اور دُشمن کا مقصد پورا کر رہا ہے۔
مہمان تحریر – الطاف حسن قریشی