باسٹھ فیصد امریکیوں نے افغانستان سے مکمل فوج نکالنے کی حمایت کر دی، جبکہ فوج کوافغانستان میں رکھنے کے حامیوں کی تعداد 2010 کے 30 فیصد سے کم ہو کر محض 15 فیصد رہ گئی۔
امریکی ادارے کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ کی افغانستان پالیسیوں سے متفق ہیں اور62 فیصد عوام فوری فوج کے انخلاء کے حق میں ہیں، عوام چاہتی ہے کہ افغانستان میں سفارت کاری سے مقاصد حاصل کیے جائیں نہ کہ جنگ و جدل سے۔
سروے کا مدعہ امریکیوں کی دنیا میں امریکہ کے کردار کے بارے میں جاننا تھا، جس پر اپنے ردعمل میں امریکی عوام نے واضح طور پر کہا کہ وہ ملکی تاریخ کی لمبی ترین جنگ سےاکتا گئے ہیں اور فوری واپسی چاہتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے طالبان سے مذاکرات کو بھی سراہا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں آئندہ دو ماہ میں افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد کو مزید کم کرتے ہوئے 4 ہزار پر لایا جائے گا۔
امریکی دنیا بھر میں اپنی فوجی کردار سے پریشان ہیں اور اس عمل کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ امریکہ کو سفارتی وسیاسی محاذ پر زیادہ کام کرنا چاہیے نہ کہ عسکری محاذ پر۔ یاد رہے کہ دنیا کے 177 ممالک میں امریکہ کے 3 لاکھ سے زائد فوجی تعینات ہیں۔ جن کی بڑی تعداد ایشیا اور پھر یورپ میں تعینات ہے۔
سروے کے مطابق امریکیوں کا کہنا ہے کہ ایران سے بھی مذاکرات کو بحال کرنا چاہیے اور معاشی پابندیوں کی مدد سے ایران کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ عالمی قوانین کا پاسدار بنے، جبکہ امریکی ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر بھی دوبارہ گفتگو شروع کرنے کے حامی ہیں۔
سروے کے مطابق ایسے امریکی جن کی رائے میں امریکہ کو اپنے دفاعی اخراجات کو کم کرنا چاہیے کی تعداد، اور جن کے خیال میں یہاں برقرار رکھنا چاہیے میں 2:1 کی نسبت دیکھنے میں آئی ہے۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے دور میں امریکی دفاعی اخرجات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ امریکہ دنیا کے بڑے ممالک، جن میں چین، ہندوستان، روس، سعودی عرب، فرانس، جرمنی، جاپان، برطانیہ، جنوبی کوریا اور برازیل شامل ہیں، کے مجموعی دفاعی اخراجات کے برابر اکیلا خرچ کرتا ہے۔
تاہم امریکیوں کا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات میں بلاتفریق کہ کونسی جماعت کا صدر جیتتا ہے، دفاعی اخراجات میں کمی کی کوئی امید نہیں ہے۔