فیس بک نے امریکہ میں انتخابی مہم کے ایسے تمام اشتہارات پر پابندی لگا دی گئی ہے جن میں انتخابی عمل کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فیس بک کے اعلان کے مطابق ووٹوں میں فراڈ، نتائج کو نہ ماننے، اور ووٹ ضائع کرنے کے حوالے سے جاری اشتہارات کو روک دیا گیا ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ فیس بک اور انسٹاگرام پر ایسا کوئی اشتہار نہیں دیا جائے گا جس میں قانونی معاملات کو مسائل کے طور پر دکھایا گیا ہو، مثلاً ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کو غیر محفوظ کہا گیا ہو، مشین سے ووٹ کو غلط قرار دیا گیا ہو، غیر حاضری میں ووٹ کو غلط قرار دیا گیا ہو یا ووٹ گننے کے عمل پر شکوک و شبہات کا پرچار کیا گیا ہو۔
اس کے ساتھ ساتھ ایسے تمام اشتہارات جو انتخابی عمل کو فراڈ کہتے ہو، لوگوں کو ووٹ سے روکنے کے مقاصد کے تحت تیار کیے گئے ہوں، یا انتخابات سے قبل ہی جیت جانے کے دعوے کرتے ہوں، انہیں بھی فیس بک پر نہیں چلایا جا سکے گا۔
گزشتہ ماہ فیس بک کے مالک مارک زکربرگ نے کہا تھا کہ وہ ایسے تمام اشتہارات کی خصوصی نشانات کے ساتھ نشاندہی کریں گے جن میں قانونی طریقوں پرشبہات کو ابھارا جاتا ہو، یا سرکاری انتخابی نتائج سے قبل ہی جیت کا اعلان کرتے ہوں۔
تاہم چند روز قبل ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے مارک زکر برگ کو خصوصی خط میں لکھا ہے کہ فیس بک انتخابی عمل میں سب سے بڑا اور خطرناک ہتھیار بن چکا ہے، سماجی میڈیا کی سائٹ پر غلط معلومات پر مبنی اشتہارات چلتے ہیں، جو جوانوں کو انتخابی عمل سے بدظن کر رہے ہیں۔
اس سے قبل جو بائیڈن کے انتخابی مہم کے سربراہ بھی صدر ٹرمپ پر غلط معلومات کی مہم چلانے کا الزام لگا چکے ہیں۔
ڈیموکریٹ پارٹی ڈاک کے ذریعے ووٹ کے حق میں ہے اور اسے بطور اہم نقطہ اچھال رہی ہے، جبکہ دوسری طرف ریپبلکن کے خیال میں یہ انتخابی فراڈ کا بڑا ذریعہ ہے، اس کے ذریعے ووٹ کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم قانونی اجازت ہونے کی وجہ سے اسے روکنا تو ناممکن ہے تاہم ریپبلکن اس عمل کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔
جبکہ دوسری طرف ڈیموکریٹ کے مؤقف کے حامل وکلاء ڈاک کے ذریعے ووٹ کے عمل میں مزید آسانی کرنے کی سفارشات کو عدالتوں میں لے کر جا رہے ہیں۔
یوں ڈاک کے ذریعے ووٹ کا حق امریکہ میں اہم مدعہ بن چکا ہے، اور ایسے میں فیس بک کا اس مدعے پر ایک جماعت کے مؤقف کی حمایت میں ابھرنا معاملے میں کشیدگی کو بڑھا سکتا ہے۔