امریکی ڈالر قیمتی دھاتوں کا متبادل بنی رہی ہے اور اس سال کی تیسری دہائی تک سونے اور چاندی کے مساوی قدر کی حامل ایک شے کے طور پر جانی جاتی تھی، تاہم جلد ایسا نہیں رہے گا۔ یہ کہنا ہے معروف امریکی ماہر برائے مالیاتی امور پیٹر شِف کا۔
ایک مقامی معروف پاڈ کاسٹ سے گفتگو میں امریکی سٹاک بروکر کا کہنا تھا کہ ڈالر کسی نہ کسی طرح ستمبر تک اپنی قدر کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا، ستمبر میں اس کی قدر میں دو فیصد کا معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا تاہم اب دوبارہ یہ ساڈھے تین فیصد گراوٹ کا شکار ہوا ہے، اور مجموعی طور پر اس سال کے تیسرے حصے میں اس میں مسلسل گراوٹ ہی دیکھنے میں آئی ہے۔
شِف یورو پیسفک کیپیٹل منصوبے کے سربراہ بھی ہیں، اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ سال کے آخری حصے میں ڈالر کو شدید مندی دیکھنے کو مل سکتی ہے، رواں سال کے چوتھے حصے میں نہ صرف بانڈ مارکیٹ بلکہ حصص بازار میں بھی ڈالر منفی رحجان کے سفر کو جاری رکھے گا۔
مالیاتی امور کے ماہر کا مزید کہنا ہے کہ ڈالر کی مانگ میں گراوٹ اسے آئندہ ایک سال، یا زیادہ سے زیادہ دو سالوں میں انتہائی بے قدر کر دے گی۔ مجموعی طور پر یہ بےقدری 60 فیصد تک جا سکتی ہے، اور اگر یہ کم از کم 40 فیصد تک جائے تو مجھے بالکل حیرانی نہ ہو گی۔
شِف نے مزید واضح کیا کہ، ڈالر کی بے قدری کے جاری عمل کا آئندہ انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے، ڈالر کی قدر دیگر وجوہات کی وجہ سے گرے گی، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ آئندہ کونسا صدارتی امیدوار کامیاب رہتا ہے۔ تاہم اگر جو بائیڈن جیتتا ہے تو یہ حصص بازار کے لیے زیادہ منفی ہو گا، کیونکہ ڈیموکریٹک امیدوار کارپوریٹ پر ٹیکس بڑھانے کاعندیا دے چکے ہیں۔