پیر, ستمبر 25 https://www.rt.com/on-air/ Live
Shadow
سرخیاں
مغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئےیورپی کمیشن صدر نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر جوہری حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دے دیااگر خطے میں کوئی بھی ملک جوہری قوت بنتا ہے تو سعودیہ بھی مجبور ہو گا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرے: محمد بن سلمانمغربی ممالک افریقہ کو غلاموں کی تجارت پر ہرجانہ ادا کریں: صدر گھانامغربی تہذیب دنیا میں اپنا اثر و رسوخ کھو چکی، زوال پتھر پہ لکیر ہے: امریکی ماہر سیاستعالمی قرضوں میں ریکارڈ اضافہ: دنیا، بنکوں اور مالیاتی اداروں کی 89 پدم روپے کی مقروض ہو گئیافریقی ممالک کے روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات پر فرانسیسی پریشانی عروج پر: تعلقات خراب کرنے کی کوشش پر وسط افریقی جمہوریہ کے صدر نے صدر میکرون کو سنا دی

ڈالر کی 60٪ تک بے قدری نوشتہ دیوار ہے، کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون صدارتی انتخاب جیتے: امریکی مالیاتی ماہر

امریکی ڈالر قیمتی دھاتوں کا متبادل بنی رہی ہے اور اس سال کی تیسری دہائی تک سونے اور چاندی کے مساوی قدر کی حامل ایک شے کے طور پر جانی جاتی تھی، تاہم جلد ایسا نہیں رہے گا۔ یہ کہنا ہے معروف امریکی ماہر برائے مالیاتی امور پیٹر شِف کا۔

ایک مقامی معروف پاڈ کاسٹ سے گفتگو میں امریکی سٹاک بروکر کا کہنا تھا کہ ڈالر کسی نہ کسی طرح ستمبر تک اپنی قدر کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا، ستمبر میں اس کی قدر میں دو فیصد کا معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا تاہم اب دوبارہ یہ ساڈھے تین فیصد گراوٹ کا شکار ہوا ہے، اور مجموعی طور پر اس سال کے تیسرے حصے میں اس میں مسلسل گراوٹ ہی دیکھنے میں آئی ہے۔

شِف یورو پیسفک کیپیٹل منصوبے کے سربراہ بھی ہیں، اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ سال کے آخری حصے میں ڈالر کو شدید مندی دیکھنے کو مل سکتی ہے، رواں سال کے چوتھے حصے میں نہ صرف بانڈ مارکیٹ بلکہ حصص بازار میں بھی ڈالر منفی رحجان کے سفر کو جاری رکھے گا۔

مالیاتی امور کے ماہر کا مزید کہنا ہے کہ ڈالر کی مانگ میں گراوٹ اسے آئندہ ایک سال، یا زیادہ سے زیادہ دو سالوں میں انتہائی بے قدر کر دے گی۔ مجموعی طور پر یہ بےقدری 60 فیصد تک جا سکتی ہے، اور اگر یہ کم از کم 40 فیصد تک جائے تو مجھے بالکل حیرانی نہ ہو گی۔

شِف نے مزید واضح کیا کہ، ڈالر کی بے قدری کے جاری عمل کا آئندہ انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے، ڈالر کی قدر دیگر وجوہات کی وجہ سے گرے گی، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ آئندہ کونسا صدارتی امیدوار کامیاب رہتا ہے۔ تاہم اگر جو بائیڈن جیتتا ہے تو یہ حصص بازار کے لیے زیادہ منفی ہو گا، کیونکہ ڈیموکریٹک امیدوار کارپوریٹ پر ٹیکس بڑھانے کاعندیا دے چکے ہیں۔

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

fifteen − 15 =

Contact Us