پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں اسقاط حمل کے حق میں ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق مظاہرہ پچھلی کئی دہائیوں میں ہونے والے مظاہروں میں سب سے بڑا تھا۔ مظاہرے میں دسیوں ہزار افراد نے شرکت کی اور اسقاط حمل پر پابندی کے ایک اہم عدالتی فیصلے کے خلاف ناراضگی کا اظہار کیا۔
اگرچہ مظاہرہ پر امن طور تھا تاہم اسقاط حمل کے مخالف گروہوں کی جانب سے نکالے جانے والے جلوس کے ساتھ جھڑپ کے خوف میں پولیس مظاہرین کے ساتھ موجود رہی۔
پولینڈ کی آئینی عدالت نے گزشتہ ماہ ایک اہم فیصلے میں ناگزیر حالات میں بھی اسقاط حمل کو غیر آئینی قرار دیا تھا، یوں عدالتی فیصلے کے بعد ملک میں اسقاط حمل کو انفرادی حق قرار دینے کی تمام کوششوں کا رستہ روک دیا گیا، جس پرلبرل نظریات کی حامل جماعتوں اور تنظیموں نے فیصلے کو انسانی حقوق کا مسئلہ بنا کر پیش کیا اور ملک کے دارالحکومت میں بڑے مظاہرے کا اہتمام کیا۔ یاد رہے کہ پولینڈ ان چند یورپی ممالک میں سے ایک ہے جہاں براعظم کے دیگر ممالک کی طرح اب تک اسقاط حمل کو مکمل قانونی حق حاصل نہیں ہوا تھا۔
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ مغربی ممالک میں عموماً اور یورپ میں خصوصآً مقامی نسل کی آبادی خطرناک حد تک کم ہونے کے باعث حکومتیں آبادی بڑھانے پر زور دے رہی ہیں، ایسے میں نہ صرف شہریوں کو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے بلکہ حکومتوں کی جانب سے بچوں کی پیدائش روکنے کے طریقوں کی باقائدہ حوصلہ شکنی کی کوششیں بھی سامنے آرہی ہیں، جسکی ایک بڑی وجہ ماضی قریب میں لبرل تنظیموں کی مہم جوئی کے باعث مختلف مغربی ممالک میں اسقاط حمل کو قانونی حق مل جانا بھی ہے۔ امریکہ میں اسقاط حمل کا حق ایک اہم سیاسی مدعہ ہے اوراسکی بنیاد پر اہم حکومتی تعیناتیاں کی یا روکی بھی جاتی ہیں، حالیہ امریکی انتخابات میں بھی اسقاط حمل کی بحث اس وقت دوبارہ شروع ہو گئی جب صدر ٹرمپ نے اسقاط حمل کے خلاف رائے رکھنے والی ایک خاتون جج ایمی کونی کو سپریم کورٹ کا جج نامزد کیا۔ جس پر لبرل نظریات کے حامل افراد اور ڈیموکریٹ جماعت نے بھرپور احتجاج کیا اور نامزدگی کے خلاف خوب مہم بھی چلائی۔