امریکی نشریاتی ادارے ایسوسیئیٹڈ پریس کو فرانس کی سیاسی صورتحال پر تبصرہ مہنگا پڑ گیا اور اس پر مغربی صارفین نے اسے آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اے پر انٹرنیٹ صارفین کی تنقید اس قدر سخت تھی کہ ادارے کو اپنی ٹویٹ تلف کرنا پڑی۔
ایسوسیئیٹڈ پریس نے اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا کہ “فرانس کو مسلم دنیا کی ناراضگی مول لینے کی کیا ضرورت تھی؟ اسکی بربریت سے بھرپور نوآبادیاتی تاریخ، سیکولر پالیسیاں، سخت رائے رکھنے والا صدر اور اسکے مسلمانوں کے دین کے بارے میں بے حس بیانات نے فرانس کو یہاں تک پہنچایا ہے۔” اے پی کے تبصرے کے ساتھ ایک تحریر بھی شامل تھی جس میں مسلمانوں کے فرانس کو تسلسل کے ساتھ نشانہ بنانے کی وجوہات بیان کی گئی تھیں۔
اے پی کے تبصرے پر رائے دہی کرتے ہوئے مغربی صارفین کا کہنا تھا کہ اے پی کی تحریر مسلمانوں کو مزید حملوں کا جواز دیتے ہوئے فرانسیسی شہریوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
کچھ صارفین نے کہا کہ اے پی معذرت خواہانہ انداز اپنا کر دہشت گرد حملوں کو جواز مہیا کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر سخت تنقید کے باعث اے پی نے اپنی تحریر اور تبصرہ تلف کر دیے، پر چند ہی گھنٹوں میں اس پر دسیوں ہزار صارفین اپنی رائے دہی کر چکے تھے۔
کچھ ہی دیر میں اے پی نے تحریر سے کچھ الفاظ بدل کر اسے دوبارہ شائع کیا اور اپنے تبصرے کی وضاحت بھی دی، تاہم اس پر معافی مانگنے اور تحریر کو ویب سائٹ سے ہٹانے سے گریز کیا۔
اپنے تازہ تبصرے میں اے پی نے لکھا کہ بہت سے ممالک آزادی رائے کے چیمپیئن بنتے ہیں اور ایسے مواد کو شائع کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے جو پیغمبر اسلام کی توہین پر مبنی ہوں، لیکن پھر بھی فرانس ہی کے خلاف اتنا سخت ردعمل کیوں ہے؟ ایسا شاید اسکے نوآبادیاتی ماضی، سیکولر پالیسیوں اور سخت بولنے والے صدر کی وجہ سے ہے۔
یعنی اپنے نئے پیغام میں اے پی نے مسلمانوں کو فرانس کے غصہ دلانے کے جملے سے گریز کیا ہے، تاہم ایک جوابی ٹویٹ میں اے پی نے مزید وضاحت میں کہا ہے کہ اس سے قبل کی گئی ٹویٹ میں ناراضگی مول لینے سے مراد فرانس کو ذمہ دار ٹھہرانہ نہیں تھا۔
وضاحت اور ٹویٹ میں تبصرے کو بدلنے کے باوجود انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے اے پی پر لفاظی حملے جاری ہیں۔ اور اب فرانسیسی صارفین امریکی ادارے سے 11 ستمبر کے حملے کا جواز پوچھ رہے ہیں۔