امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ نے اچانک پینٹاگون میں اعلیٰ عہدوں پر فائز اہلکاروں کو تبدیل کر دیا ہے جس پر حزب اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹ اور اس کے حامیوں میں تشویش کی نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ امریکہ میں افواہ گرم ہے کہ اچانک تبدیلیاں مارشل لاء لگانے کی تیاری ہو سکتی ہے، یا صدر اقتدارکی منتقلی سے پہلے افغانستان سے مکمل فوجی انخلاء کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ دوسرے تجزے کو اس لیے بھی زیادہ درست مانا جا رہا ہے کیونکہ نئے تعینات کردہ اہلکار افغانستان سے فوری فوجی انخلاء کے حامی ہیں۔
صدر ٹرمپ نے وزیر دفاع مارک ایسپر، وزیر دفاع کی سیکرٹری جینیفر سٹیورٹ، پالیسی چیف جیمز اینڈرسن اور حساس ادارے کے معاون سیکرٹری جوزف کرنان کو تبدیل کیا ہے، اور ان کی جگہ قومی سلامتی کونسل اور محکمہ انسداد دہشتگردی کے سربراہ کرسٹوفر ملر، سابق معاون قومی سلامتی کونسل کاش پٹیل، جنرل ایتھنی ٹاٹا، اور قومی سلامتی کونسل کے ایک اور معاون کوہن واٹنک کو ذمہ داریاں سونپی ہیں۔
امریکی لبرل میڈیا میں شوربڑپا ہے کہ نئے تعینات کردہ تمام اہلکار ٹرمپ کے وفاداروں کا ہے، اور صدر ٹرمپ ملک میں مارشل لاء لگانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ صدر نے صرف ان افراد کو ہٹایا ہے جنہوں نے صدر کے ساتھ وفاداری نہیں نبھائی اور جنگوں کو تیزی سے ختم کرنے کے فیصلے کو پورا نہیں کیا۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ خارجہ پالیسی اور پینٹاگون کو سابق بیوروکریٹوں اور جنگوں کی حامی بڑی اسلحے کی صنعتوں کے اثر سے مکمل طور پرنکالنا چاہتے ہیں، اور امریکہ کی خارجہ پالیسی کو نئی سمت دینا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ صدر کے مطابق نیو کنزرویٹزم نے امریکہ کو تباہ کر دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے 2016 کے انتخابات جنگوں کو ختم کرنے کے نام پر لڑے تھے، اور صدر منتخب ہو کر انہوں نے پینٹاگون کی شدید مزاحمت کے باوجود افغانستان، عراق اور شام کی جنگوں کو ختم کرنے کے لیے شدید دباؤ ڈالا، اور طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر بھی دستخط کیے۔
نیبویسا ملک – رشیا ٹوڈے