چین اور جاپان سمیت مشرق بعید کے 15 ممالک دنیا کے سب سے بڑے آزاد تجارت کے معاہدے پر دستخط کرنے جا رہے ہیں۔ معاہدے پر دستخط بروز اتوار متوقع ہیں۔
خبروں کے مطابق آر سی ای پی نامی آزاد تجارت کے اس معاہدے کے تحت ممالک آپسی تجارت میں کوئی چُنگی ٹیکس وصول نہیں کریں گے، اشیاء کی فراہمی کو بلارکاوٹ چلانے اور تجارت کو ایک تسلسل سے جاری رکھنے کے لیے نئے قوانین بھی بنائیں گے۔ مشترکہ اجلاس میں علاقائی معاشی تعاون کو بڑھانے کے لیے تنظیم سازی کے اعلان کا بھی امکان ہے۔
پہلے مشترکہ اجلاس کی میزبانی ویتنام کر رہا ہے، جبکہ دیگر رکن ممالک میں برونائی، کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس، ملائیشیا، میانمار، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا، نیوزی لینڈ، جاپان، آسٹریلیا اور چین شامل ہیں۔
واضح رہے کہ نئے علاقائی تجارتی اتحاد میں شامل ممالک دنیا کی ایک تہائی پیداوار اور آبادی کا مرکز ہیں، اور یہ آزاد تجارت کا پہلا اتحاد ہے جس میں چین، جاپان اور جنوبی کوریا بھی شامل ہیں، جو بالترتیب ایشیا کی پہلی، دوسری اور چوتھی بڑی معیشتیں ہیں۔ بڑے تجارتی اتحاد میں ہندوستان کو بھی شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی تاہم اس نے چین کی تجارتی برتری کے خوف میں شمولیت سے انکار کر دیا۔
ملائیشیا کے وزیر تجارت نے معاہدے کو آٹھ سالوں کی محنت قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ معاہدہ خون، پسینے اور آنسوؤں سے لکھا گیا ہے۔
واضح رہے کہ تجارتی معاہدے کا خیال 2011 میں پیش کیا گیا تھا جس کے تحت تمام شامل ممالک کو 20 سالوں میں درآمدی ٹیکس 90 فیصد تک کم کرنا ہے اور تجارت کے لیے نئے قوانین اور تجارتی تعاون کے لیے دیگر اقدامات بھی اٹھانے ہیں۔
چینی قیادت میں ہونے والے تجارتی معاہدے کو مغربی تجزیہ کار ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دے رہے ہیں، ایک معروف مغربی نشریاتی ادارے کے اداریے نے لکھا ہے کہ ایسے سخت وقت میں، ایک ہی وار میں چین کا اہم اور بڑی معیشتوں سمیت 15 ممالک کے ساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ عالمی سفارتی مارشل لاء لگانے کے مترادف ہے۔
جبکہ چینی قیادت کا کہنا ہے کہ معاہدہ علاقائی اتحاد اور معاشی عالمگیریت کا واضح، مظبوط اور مثبت اشارہ ہے۔