امریکی وزارت خارجہ نے سعودی عرب کو 3000 خودکار جی بی یو-39 میزائل بیچنے کی منظوری دے دی ہے، اطلاعات کے مطابق میزائل 29 کروڑ ڈالر میں بیچے گئے ہیں۔ بروز منگل امریکی وزارت نے اس کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی 4 ارب ڈالر کا مزید اسلحہ بیچنے کی اجازت دی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے بھی امریکی وزارت خارجہ نے کانگریس کو مطلع کیا تھا کہ وہ اتحادی ممالک کے مفاد میں سعودی عرب کو فضاء سے زمین پر وار کرنے کے قابل 7500 میزائل بیچنے میں دلچسپی رکھتا ہے، جس کے لیے 47 کروڑ ڈالر کا معاہدہ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ کے آئندہ صدر جوبائیڈن معاہدے کو ختم کر سکتے ہیں، تام اس سے سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں تعطل آ سکتا ہے۔ لیکن امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں پر مہارت رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر جوبائیڈن ایسا نہیں کریں گے، کیونکہ صدر اوباما کے نائب صدر ہوتے ہوئے وہ بھی مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک بشمول سعودی عرب کو اسلحہ بیچتے رہے ہیں۔ اور اب جوبائیڈن نے نامزدکردہ وزیر دفاع بھی 2016 سے ریتھیون بورڈ کے رکن ہیں۔
امریکہ میں مختلف لابیاں مشرق وسطیٰ کو خصوصاً اور دیگر مسلم ممالک کو عموماً اسلحے کے معاہدوں کے حق اور مخالفت میں کام کرتی رہتی ہیں، سعودی عرب کے ساتھ صدر ٹرمپ کے دور میں ہونے والے اسلحے کے معاہدے پر بھی کڑی تنقید رہی ہے جس کی بڑی وجہ یمن میں جاری جنگ اور خطے کے دیگر ممالک کا امریکہ میں بڑھتا اثرورسوخ ہے۔ جبکہ اس کے حق میں بات کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اتحادی ممالک کو اسلحے کی فراہمی کو روکنا نہ صرف امریکی تذویراتی مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ اس سے روسی اسلحے کے لیے رستہ بھی ہموار ہو جاتا ہے۔
خطے کے دیگر ممالک میں کویت کو اپاچی ہیلی کاپٹر اور میزائل دینے کی منظوری دی گئی ہے جبکہ مصر کو ایف سولہ کے پرزوں کی فراہمی کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔ وزارت خارجہ نے تائیوان کو بھی 22 ارب ڈالر کے اسلحے کی فراہمی کی منظوری دی ہے۔