فیس بک نے آزادی اظہار پر پابندی کی تمام حدود پار کرتے ہوئے امریکی انتخابات میں ہونے والی دھاندلی پر اعتراضات کو جرم مان لیا ہے۔ امریکی انتخابات پر سوال کرنے اور ووٹ کی چوری روکو تحریک سے وابستہ صارفین کے پیغامات کو معروف سماجی میڈیا ویب سائٹ فوری تلف کر رہی ہے۔
امریکہ میں لبرل اور روایت پسندوں کے درمیان جاری کشمکش میں ابلاغی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے واضح سیاسی طرفداری کی یہ تازہ مثال ہے۔ ویب سائٹ کا مؤقف ہے کہ دھاندلی کے الزام سے معاشرے میں تشدد کو ہوا مل رہی ہے۔ بروز سوموار شروع ہونے والی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ جو افراد بدھ کے روز کیپیٹل ہل پر دھاوے میں ملوث تھے، اور مسلسل انتخابی نتائج پر اعتراضات اٹھا کر معاشرے میں بےامنی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں، انہیں تشدد کو مزید ہوا دینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
فیس بک نے مزید اقدامات اٹھانے کا عندیا دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انتخابات میں غلط خبروں کو روکنے کی ٹیکنالوجی کے استعمال کو جاری رکھے ہوئے ہے، اور اسی کی مدد سے اب تشدد روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس سے قبل ایک بڑے اقدام میں فیس بک اور ٹویٹر سمیت 6 لبرل ابلاغی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے صدر ٹرمپ کے کھاتے بند کر دیے تھے۔ جس پر جرمنی کی چانسلر انجیلا میرکل سمیت دنیا بھر سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا اور اسے ریاستی خود مختاری کے خلاف ایک بڑا عمل قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ فیس بک نے امریکہ میں تمام سیاسی اشتہاروں پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔ اور اعلیٰ عہدے داروں کے انتخابات پر اعتراض کے پیغامات پر تنبیہی نشان کی پالیسی بھی مسلسل جاری ہے۔