امریکی جامعہ سٹینفورڈ کے پروفیسر مائیکل کوسنسکی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایسا الگورتھم تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس کے مصنوعی ذہانت سے لیس مشین کے ساتھ استعمال سے شہریوں کے چہرے سے انکی سیاسی وابستگی کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ پروفیسر کا دعویٰ ہے کہ مشین نے تجربے میں لبرل اور روایت پسندوں کی 72 فیصد تک درست نشاندہی کی ہے۔
اپنی تحقیق کے بارے میں تفصیل فراہم کرتے ہوئے ڈاکٹر مائیکل نے لکھا ہے کہ انہوں نے فیس بک کی دس لاکھ سے زائد پروفائل تصویروں کو بطور نمونہ استعمال کیا ہے۔ جس میں زیادہ صارفین امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا سے تھے۔ نئی تحقیق کی خاص بات تیار کردہ الگورتھم کی عمر، جنس اور لسانی تفریق کے بغیر شناخت کی صلاحیت ہے۔
تحقیق میں چہرے کے تاثرات میں سے سر کے رخ اور چہرے پر جذبات کے اظہار کو بنیاد بنایا گیا تھا۔ تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ لبرل نظریات کے حامی افراد براہ راست کیمرے کیطرف دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں، اور عمومی طور پر انکے چہرے پر حیرانگی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ تحقیقی مقالے میں مزید کہا گیا ہے کہ لبرل نظریات کے حامل افراد کی مسکراہٹ کافی حد تک حقیقی اور شدید ہوتی ہے۔ جبکہ عمر کے ساتھ ساتھ انکے چہرے پر خصوصی جھڑیاں بنتی ہیں۔
دوسری طرف روایت پسند افراد کے چہرے صحت مند ہوتے ہیں، جسکی ممکنہ وجہ شراب اور سگریٹ کا کم استعمال اور نامیاتی خوراک کو ترجیح دینا ہے، جس سے انکی جلد لبرل افراد کی نسبت نمایاں طور پر مختلف نظر آتی ہے۔
سائنسی تحقیق میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ چہرے کے تاثرات انسان کی کامیابی کے رحجان کو بھی بتاتے ہیں، اور اس سے کسی شخص کی تعلیمی کامیابیوں کو بھی جانا جا سکتا ہے، یہاں تک کہ چہرہ کسی سزا یافتہ شخص کی قید کے دورانیے کو بھی بیان کرتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اس سے کسی کے نظریات کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔
سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ نظریات سے وابستگی کا آغاز ماں کے بطن سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ جس میں جین، رطوبتوں اور والدین کی خوراک کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ والدہ کی گندگی کو لے کر رائے اور رہن سہن کا بھی بچے کے افکار پر اثر پڑتا ہے، والدین کی شراب نوشی کی عادت اور سیاست سے وابستگی نہ ہونے کا بھی بچے کی نظریاتی سوچ پر اثر پڑتا ہے۔
ڈاکٹرمائیکل نے تحقیق میں چہرے سے شخصیت کی پہچان کے علم کو غیرسائنسی، توہم پرستی اور ماضی کے قصے کہانیوں سے جوڑنے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ماضی میں اگر اس پر غیر سائنسی طریقوں سے کام ہوا ہے تو اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ یہ علم درست نہیں ہے۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر مائیکل فلسطین پر قابض صیہونی انتظامیہ کے ساتھ بھی کام کر چکے ہیں، جس میں وہ قابض انتظامیہ کو فلسطینی شہریوں کے ممکنہ دہشتگرد ہونے کے حوالے سے مدد کرتے تھے۔
واضح رہے کہ چہرہ شناسی کے علم پر مبنی اس سے قبل بھی ایک الگورتھم بن چکا ہے جو مجرموں کی شناخت کے لیے محکمہ پولیس کی مدد کرتا ہے، اسکی درست شناخت کی صلاحیت 80فیصد بتائی جاتی ہے۔ جبکہ چین میں معاشرے کو منظم کرنے کے حوالے سے ٹیکنالوجی کا استعمال دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔