روسی دفتر خارجہ کی ترجمان ماریہ زاخارووا نے ٹویٹر کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کھاتے کو بند کرنے کے اقدام کو جمہوری روایات کے خلاف کڑا وار قرار دیا ہے۔ روسی عہدے دار کا کہنا تھا کہ ایک نجی کمپنی کی جانب سے ریاست کے سربراہ کی آواز کو بند کرنے کی روایت کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔
ماریہ زاخاور کا کہنا تھا کہ واقعہ سائبر دنیا میں جوہری دھماکے کے برابر ہے، اس کے بہت دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔
روسی عہدے دار کا مزید کہنا تھا کہ واقعہ دراصل مغربی سماج کی حقیقی عکاسی ہے، جو ہر وقت دنیا کو آزادی رائے کا پرچار کرتا ہے پر اپنے ممالک میں عمومی سماج سے لے کر سائبر دنیا میں بھی سخت سنسرشپ لاگو ہے۔ دنیا کی بڑی ابلاغی ٹیکنالوجی کمپنی نے ان آوازوں کو تقویت دی ہے جو سائبر دنیا کو منظم کرنے کے نام پر مخالف آوازوں کو دبانا چاہتے ہیں۔
سماجی میڈیا پر شائع تحریر پر روسی ترجمان کا کہنا تھا کہ ٹویٹر کے اقدام سے اب تک دنیا کی سب سے بڑی ڈیجیٹل ہجرت ہوئی ہے۔ امریکیوں کی بڑی تعداد نے روسی ابلاغی ٹیکنالوجی ایپ ٹیلی گرام کا رخ کیا ہے، لوگ فیس بک اور ٹویٹر کو تیزی سے چھوڑ رہے ہیں۔
ڈیجیٹل ہجرت پر ٹیلی گرام کے بانی پاول دوروو نے ایپل اور گوگل سٹور کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں کمپنیاں مخالف نظریات کو جگہ دینے والی ایپلیکیشنوں پر پابندی لگا سکتی ہیں۔
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے امریکی ذرائع ابلاغ سے متعلق نئے قوانین پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی قوانین اس وقت منتشر فیصلوں، لابیوں اور دھمکیوں کے شیطانی اتحاد کا ایک مجموعہ ہے۔
فیس بک اور ٹویٹر نے امریکی صدر پر اپنے ہی ملک میں بغاوت کے الزامات لگاتے ہوئے دنیا کے بہت سے ممالک کی حکومتوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ جرمنی کی چانسلر اینجیلا میرکل بھی امریکی لبرل کمپنیوں کی جانب سے سربراہ مملکت کی آواز کو دبانے کے اقدام کو پریشان کن قرار دے چکی ہیں جبکہ یورپی کمیشن برائے مارکیٹ کے سربراہ تھیئری بریٹن نے اقدام کا موازنہ 9/11 سے کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقع بھی ایک نئے دور کے آغاز کا پیش خیمہ ہو گا، جس میں نجی اور غیر منظم کمپنیاں جمہوریت کے لیے خطرہ بن جائیں گی۔