Shadow
سرخیاں
پولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئےیورپی کمیشن صدر نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر جوہری حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دے دیااگر خطے میں کوئی بھی ملک جوہری قوت بنتا ہے تو سعودیہ بھی مجبور ہو گا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرے: محمد بن سلمان

ایتھوپیا کے شمال میں حکومتی عملداری کے لیے فوجی آپریشن جاری: سابق وزیر خارجہ سمیت 3 اہم سیاسی رہنما ہلاک

ایتھوپیا کے شمالی علاقے میں ریاست کی عملداری قائم رکھنے کے لیے شروع عسکری کارروائی میں سابق وزیر خارجہ صیوم میسفن سمیت علاقے کے تین سیاسی رہنماؤں کے مارے جانے کی اطلاع ہے۔ یاد ریے کہ تغرے کے علاقے میں نومبر 2020 کے آغاز میں فوجی کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا۔

فوج کے ترجمان نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ صیوم، عابے تسیہائے، اسمیلاش ولڈایسیلاس اور کرنل کیروس ہاگوس فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے ہیں۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ کہ سابق وزیر خارجہ کو ہتھیار ڈالنے کا موقع دیا گیا تھا تاہم انہوں نے اسے قبول نہ کیا، اور فوج پر حملہ جاری رکھا۔

واضح رہے کہ صیوم میسفن عوامی جمہوریہ ایتھوپیا کے پہلے وزیر خارجہ تھے۔ جو 1991 میں آمر حکمران منگیستو ہائیلے کا تحتہ الٹنے کے بعد بننے والی حکومت کے اہم ترین مرکزی عہدے دار تھے۔ صیوم نے اپنا عہدہ 2010 میں چھوڑا اور اس کے بعد چین میں ایتھوپیا کے سفیر بھی رہے ہیں۔

فوج کی جانب سے کارروائی میں علیحدگی پسندوں کے پانچ افراد کو زندہ گرفتار کرنے کا دعویٰ بھی سامنے آرہا ہے۔

گزشتہ ہفتے وزیراعظم عابی احمد نے علیحدگی پسندوں کی جانب سے لڑائی میں شامل 15 فوجیوں کے مارے جانے کی اطلاع دی تھی، کارروائی میں مقامی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنما صبحت نیگہا سمیت 8 افراد کے گرفتار ہونے کی خبر بھی سامنے آئی تھی۔

تاہم دوسری جانب سے ان میں سے کسی بھی دعوے کی تصدیق یا تردید تاحال سامنے نہیں آئی ہے۔

واضح رہے کہ علیحدگی پسند گروہ ٹی پی ایل ایف وزیراعظم عابی کی حکومت کو غیر آئینی سمجھتا ہے، اسکا مؤقف ہے کہ جولائی 2020 میں کورونا وباء کے نام پر انتخابات مؤخر کر کے وزیراعظم عابی نے اپنے اقتدار کو طوالت دینے کی غیر آئینی کوشش کی۔

حکومت سے اختلافات بڑھنے اور صورتحال بگڑنے پر وزیراعظم عابی نے نمبر 2020 میں تغرے کے علاقے میں فوجی کارروائی شروع کر دی اور ملک میں 6 ماہ کے لیے ایمرجنسی نافذ کر دی۔ حکومت نے ٹی پی ایل ایف پر فوجی چھاؤنی پر حملے کا الزام بھی لگایا تھا جسکی مقامی سیاسی جماعت نے ہمیشہ تردید کی ہے۔

فوجی کارروائی شروع کرنے سے قبل وزیراعظم عابی نے تمام علاقے کو 72 گھنٹے میں خالی کرنے کی تنبیہ کی تھی، تاہم مقامی آبادی کے سوڈان کی طرف ہجرت کے علاوہ علیحدگی پسند علاقے میں ہی رہے اور لڑنے کو ترجیح دی۔

وزیراعظم نے عوامی تحفظ کی ضمانت دیتے ہوئے فوجی کارروائی شروع کی اور خطے میں حکومتی عملداری کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا۔

واضح رہے کہ نومبر سے فوجی کارروائی کے علاقے میں عالمی نشریاتی اداروں یا فلاحی تنظیموں کو جانے کی اجازت نہیں ہے، اور علاقے کا انٹرنیٹ بھی تب سے ہی بند ہے۔

مقامی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عابی کے ساتھ تغرے کے مقامی رہنماؤں کا شروع سے ہی اختلاف چلا آرہا ہے، وزیراعظم عابی ماضی میں ملک کے جاسوس ادارے کے اعلیٰ افسر رہے ہیں اور لسانی طور پر ملک کے جنوبی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وفاقی عوامی جمہوریہ میں شمالی خطے کے سیاسی رہنماؤں میں حکومت میں حصہ نہ ہونے کا احساس تیزی سے پروان چڑھا ہے، خصوصاً جبکہ مقامی جماعت ٹی پی ایل اف سابق آمر کو اقتدار سے ہٹانے میں انتہائی متحرک رہی تھی۔

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

six − one =

Contact Us