دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کی گزشتہ سال مجموعی مقامی پیداوار 8 اعشاریہ 2 فیصد رہی، جس نے امریکہ سمیت تمام مدمقابل معیشتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اکانومسٹ کی تیار کردہ نئی تحقیقاتی رپورٹ میں ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ چینی معیشت دنیا کی واحد معیشت ہے جو وباء کے باوجود گراوٹ سے بچی رہی۔
رپورٹ میں معاشی ماہرین نے پیشنگوئی کی ہے کہ صورتحال چین کے حق میں ہے اور چین آئندہ 8 سالوں میں ہی امریکہ کو کاٹتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت بن جائے گا۔ معاشی ماہرین اس سے قبل چین کے قوت بننے کے لیے 2030 کا سال تجویز کرتے تھے تاہم دنیا خصوصاً امریکہ کی کورونا کے دوران زبوں خالی کے بعد اور چین کے حالات کو انتہائی حیران کن تیزی سے منظم رکھنے کی صلاحیت نے چین کی برتری کو مزید نزدیک کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ اکیسویں صدی میں تاحال چین دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرتی معیشت ہے، جبکہ گزشتہ سال دنیا کی پیداوار میں مجموعی طور پر 4 اعشاریہ 2 فیصد کی کمی ہوئی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چین اپنے معاشی تعلقات کے لیے دونوں امریکی براعظموں اور افریقہ کو ثانوی نمبر پر رکھتے ہوئے یورپ اور ایشیا کو ترجیح دیے ہوئے ہے، جہاں زمینی راستے اسکی تجارت کے لیے آسانی فراہم کرتے ہیں۔ جبکہ چین نے لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنا کر مقامی بازار سے بھی فائدہ اٹھانے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔
رواں ہفتے اپنے ایک بیان میں صدر ژی جن پنگ نے کہا ہے کہ عالمی سیاسی صورتحال اور وقت چین کے حق میں ہیں، جبکہ امریکہ بری طرح سے اندرونی مسائل میں گرا ہوا ہے۔ چین دنیا کو وباء کے اثرات سے نکلنے میں مدد کر سکتا ہے۔
دوسری طرف یورپی اور امریکی کمپنیوں میں بھی چین میں سرمایہ کاری میں دلچسپی نظر آرہی ہے۔ جس کی بڑی وجہ چین کی مستحکم سیاسی صورتحال ہے۔ چینی حکومتی اعدادوشمار کے مطابق چین میں گزشتہ سال مجموعی طور پر 129 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی۔ جبکہ دنیا میں اس میں 30-40 فیصد کی کمی ہوئی۔
اکانومسٹ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال مجموعی طور ہر چین کی برآمدات میں 3 اعشاریہ 6 فیصد کا اضافہ ہوا، جبکہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی تجارت میں 5 اعشاریہ 6 فیصد کی کمی ہوئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی صرف معاشی ترقی ہی نہیں اسکا ترقی کا انداز اور رحجان بھی معاشی پنڈتوں کو متاثر کر رہا ہے۔ چین میں لوگوں کی قوت خرید میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ دنیا میں بھی اس رحجان کے باعث چین صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔