برطانیہ میں سکاٹ لینڈ کی نمائندہ وزیر نیکولا سٹرجن نے سکاٹ لینڈ کی خودمختاری کے لیے ایک بار پھر ریفرنڈم کے اسرار کو دوہرایا ہے اور کہا ہے کہ انکی جماعت مئی میں عام انتخابات جیت کر خودمختاری کے فیصلے کے لیے عوام کے پاس جائے گی، جبکہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے زور دیا ہے کہ آئندہ ریفرنڈم 2055 سے قبل نہیں ہونا چاہیے۔
نیکولا سٹرجننے بی بی سی سے گفتگو میں وزیراعظم کو ڈرپوک چوہا قرار دیتے ہوئے کہا بورس جانسن جمہوریت سے ڈرتے ہیں، اس لیے عوامی رائے کو نظرانداز کرتے ہوئے کم از کم 50 سال کا وقت مانگ رہے ہیں۔
یاد رہے کہ سکاٹ لینڈ میں خودمختاری/علیحدگی کے لیے 2014 میں ریفرنڈم ہوا تھا جس میں 55 فیصد شہریوں نے علیحدگی کو ناپسند کیا تھا تاہم یورپی اتحاد سے الگ ہونے کے بعد سکاٹ لینڈ میں علیحدگی کی تحریک زور پکڑ گئی ہے۔ اور عوامی سروے میں بھی علیحدگی کے حامیوں میں اضافے کے اشارے ملے ہیں۔

سکاٹش نیشنل پارٹی نے اپنے منشور میں بھی خودمختاری کو نمایاں اہمیت دیتے ہوئے اسکے لیے مکمل لائحہ عمل ترتیب دے دیا ہے۔ اور 2021 میں انتخابات جیت کر تحریک میں نئے سرے سے چلانا چاہتی ہے۔ جماعت کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کی راہ میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے، تاہم مرکزی حکومت وباء کے ختم ہونے تک انتظار کی درخواست کر رہی ہے۔ تاہم سکاٹ لینڈ کے سیاسی رہنما اسے قانونی و اخلاقی جواز کی نفی قرار دے رہے ہیں۔
سکاٹس نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ سکاٹ لینڈ ایکٹ 1988 کی شق نمبر 30 مقامی آئینی حکومت کو جزوی یا مستقل قانونی سازی کا اختیار دیتی ہے، اور اس کے لیے اسے برطانوی اجازت یا توثیق کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
دوسری طرف بورس جانسن سکاٹ لینڈ کی مہم کو روکنے کے لیے پانچ نکاتی ایجنڈا لا رہے ہیں، جس کی مدد سے وہ خودمختاری کے خلاف مہم چلائیں گے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کسی بھی قوم کے لیے کوئی کھیل تماشا نہیں ہوتے، اور یہ ایک نسل میں ایک بار ہی ہونا چاہیے، سکاٹ لینڈ کی علیحدگی پسند جماعت کے پاس قابل عمل اکثریت نہیں ہے، لہٰذا انہیں پہلے اس پر کام کرنا چاہیے اور آئندہ نسل میں دوبارہ ریفرنڈم کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔
بورس جانسن نے مزید کہا کہ برطانیہ نے یورپی اتحاد سے نکلنے کے لیے ریفرنڈم 36 سال کے بعد کیا، اس سے قبل 1975 میں ریفرنڈم ہوا ہے ، اور دوبارہ 2016 میں، سکاٹ لینڈ کو بھی سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی مہمات چلانی چاہیے۔