ہندوستان میں پنجابی کسانوں کا نئی زراعت پالیسیوں کے خلاف احتجاج شدت اختیار کر گیا ہے۔ احتجاج میں اب دیگرعلاقوں کے کسانوں نے بھی شمولیت اختیار کر لی ہے۔ آج ہندوستانی یوم جمہوریہ پر مشتعل مظاہرین نے دارلحکومت دہلی میں لال قلعے پر دھاوا بول دیا جس پر دنیا بھر میں خبر کو جگہ ملی۔
آج کسانوں نے ٹینکوں کے مقابلے میں ٹریکٹر مارچ منعقد کیا اور روائیتی اسلحے سے لیس ہو کر دہلی داخل ہوئے۔ راستے میں پولیس اور خصوصی افواج نے رستہ روکنے کی بہت کوشش کی اور گولی بھی چلی لیکن مشتعل مظاہرین لال قلعے پر چڑھ دوڑے۔
مقامی میڈیا کے مطابق آج دہلی میں انٹرنیٹ سروس بند تھی جس کے باعث صورتحال کی فوری اطلاعات عالمی میڈیا پر نہ آسکیں، لیکن شام کو ہندوستان کی پولیس اور فوج کا تماشہ پوری دنیا کے ابلاغیات پر دیکھا گیا۔
یاد رہے کہ کسانوں کا احتجاج پچھلے دو ماہ سے جاری ہے لیکن مودی سرکار اس پر توجہ نہ دے رہی تھی، جس کے باعث آج اہم قومی دن پر شہری بپھر گئے اور اہم قومی عمارت پر علاقائی اور علیحدگی پسند تحریکوں کے جھنڈے لہرا دیے۔
پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج، آنسو گیس کا استعمال بھی کیا لیکن اس سے مظاہرین مزید مشتعل ہو گئے اور ساتھ لائی کرینوں اور ٹریکٹروں سے تمام رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے لال قلعے پر تحریکوں کے جھنڈے لہرا دیے۔
وزیراعظم مودی قلعے کی دیواروں میں دبکے بیٹھے رہے اور قوم سے مختصر خطاب کر کے رفو چکر ہو گئے۔
اس موقع پر مظاہرین کے رہنما سکھ دیو سنگھ کا کہنا تھا کہ اب مودی کو ہماری طاقت کا اندازہ ہوا ہو گا، اور اب وہ ہمارے طالبات کو ضرور سنے گا۔ ہم مارکیٹ کے بیوپاریوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی نہیں بنیں گے، کسانوں کو اپنی محنت کا پورا حق چاہیے۔
حکومت نے نئے قوانین پر عملدرآمد 18 ماہ کے لیے روک دیا ہے لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو قوانین واپس لینا ہوں گے۔ یہ ہماری زندگی اور موت کا سوال ہے۔
واضح رہے کہ ہندوستان میں تقریباً آدھی آبادی زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے، اور مودی سرکارعالمی کمپنیوں کو نوازنے کے لیے کسانوں کی حق تلفی کے قوانین متعارف کروا رہی ہے، جس کے باعث کسان شدید نالاں ہیں۔