برطانیہ میں صحت کی ناقص اور متعصب سہولیات کے باعث ملک میں مقیم غیر ملکیوں کی صحت مقامی افراد کی نسبت کم بہتر پائی گئی ہے۔ برطانیہ میں گئی ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ ملک میں مقیم پاکستانی، بنگالی، ہندوستانی، عرب اور دیگر اقوام کی 60 سال میں صحت مقامی اینگلو سیکسن افراد کی 80 سال کی صحت کے برابر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی ادارہ صحت ملک میں مقیم تمام لسانی گروہوں کو صحت کی مساوی سہولیات پہنچانے سے قاصر ہے۔ تحقیق میں شامل جامعہ مانچسٹر کے ڈاکٹر رتھ واٹکنسن کا کہنا ہے کہ صحت کے شعبے کو ادارہ جاتی نسلی تعصب ختم کرنے کے لیے فوری کام کرنا ہو گا، جس کے باعث ملک میں مقیم دیگر لسانی گروہ مساوی سماجی و معاشی فوائد حاصل نہیں کر پاتے، اور انکی صحت سفید فام افراد کی نسبت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔
برطانیہ میں اس وقت 12 فیصد نوجوان اقلیتی لسانی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں، تحقیق میں نوجوانوں سے متعلق مطالعہ میں انکشاف ہوا ہے کہ انکی صحت کا معیار بھی سفید فام افراد کی نسبت کم تر ہے، اور یہ فرق خصوصی طور پر لڑکیوں میں زیادہ نمایاں ہے۔ رپورٹ کے مطابق کچھ افریقی اور چینی نوجوانوں میں صحت کا معیار مقامی اینگلو سیکسن کے مدمقابل ضرور پایا گیا ہے اور ان میں صںفی فرق بھی نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق اقلیتی گروہوں کے بزرگوں میں خصوصی طور پر ایک وقت میں ایک یا ایک سے زیادہ بیماریاں پائی گئی ہیں، اور ان میں بیماری کا علاج ہونے میں بھی زیادہ وقت لگتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس میں شک نہیں کہ صحت کے معیار میں فرق کا ذمہ دار صرف محکمہ صحت نہیں اور افراد کی ملازمت، رہن سہن، خوراک، طرز زندگی وغیرہ بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں البتہ محکمہ صحت تمام افراد کو مساوی سہولت فراہم کرنے میں بھی ناکام نظر آرہا ہے، ملک میں شہری مساوی سطح پر صحت کی سہولیات تک رسائی نہیں رکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ تحقیق کے لیے برطانیہ کے محکمہ صحت کے سالانہ ڈیٹا اور مریضوں کے سروے سے معلومات اکٹھی کی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ 2015 سے 2017 کے دوران 55 سال سے زائد عمر کے 14 لاکھ بزرگوں سے بھی گفتگو کے ذریعے معلومات جمع کی گئیں اور رپورٹ کو مرتب کیا گیا۔