ہندوستان کے وزیر برائے ٹیکنالوجی نے امریکی سماجی میڈیا ویب سائٹ ٹویٹوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے، اسمبلی میں خطاب کے دوران روی شنکر کا کہنا تھا کہ ویب سائٹیں امریکہ اور باقی دنیا کے لیے مختلف معیار رکھتی ہیں، امریکہ میں کیپیٹل ہل پر دھاوا بولا گیا تو تمام ویب سائٹیں متحد ہو کر ملکی مفاد میں چل پڑیں لیکن جب ہندوستان میں کسانوں نے لال قلعے پر دھاوا بولا تو ویب سائٹوں نے مختلف معیار اپنایا اور مقامی قوانین کا ساتھ نہ دیا۔ ہندوستانی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ بلکہ ٹویٹر اور فیس بک پر کسان احتجاج کو مزید اچھالا گیا اور دنیا بھر میں ہندوستان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔
ہندوستانی وزیر نے قومی اسمبلی سے خطاب میں مزید کہا کہ ٹویٹر، فیس بک، لِنکڈان اور وٹس ایپ کو ہندوستان میں کام کرنے کے لیے خوش آمدید کہتے ہیں لیکن انہیں ہندوستان کے آئین اور مقامی قوانین کی پیروی کرنا ہو گی۔
ہندوستانی وزیر کے ناراضگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ٹویٹر نے ہندوستان کی حکومت کی درخواست پر 1000 کھاتوں کو بند کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ہندوستان سرکار نے ٹویٹر سے درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ یہ کھاتے کسان احتجاج سے متعلق غلط معلومات پھیلا رہے ہیں، اور عوام کو حکومت کے خلاف بغاوت کے لیے اکسا رہے ہیں، درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ دہلی میں لال قلعے پر حملے کے لیے بھی انہی کھاتوں سے مہم چلائی گئی تھی، لہٰذا کمپنی انہیں بند کر دے۔
ہندوستان نے مثبت جواب نہ آنے پر امریکی کمپنی کے ملک میں نمائندگان کو جرمانے اور سزا کی دھمکی بھی دی ہے تاہم ٹویٹر انتظامیہ نے تاحال کوئی خاص کارروائی نہیں کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کمپنی نے 100 کے نزدیک کھاتوں کے پیغامات کو روک دیا ہے تاہم مودی سرکار کے مطالبے کے مطابق کسی بھی سخت اقدام سے گریز کیا ہے۔
کمپنی کا مؤقف ہے کہ صارفین میں سے کسی نے بھی ہندوستان کے قانون کو نہیں توڑا۔
تاہم مودی کابینہ کا کہنا ہے کہ ٹویٹر انتطامیہ نے کیپیٹل ہل اور لال قلعے پر دوہرے معیار کا مظاہرہ کیا۔ اسمبلی میں وزیر ٹیکنالوجی کا مزید کہنا تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کیپیٹل ہل پر ٹویٹر مختلف ردعمل کا مظاہرہ کرے اور لال قلعے پر مخلتف رویے کا؟ امریکی کمپنیوں کو دوہرا معیار ختم کرنا ہو گا۔
یاد رہے کہ کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے پر ٹویٹر نے ملک کے صدر (ڈونلڈ ٹرمپ) سمیت 70 ہزار سے زائد کھاتوں کو مستقبل بند کر دیا تھا، پولیس سے مکمل تعاون اور ملوث افراد کی نشاندہی میں انتظامیہ کی مدد بھی کی تھی۔ جس پر ہندوستانی انتظامیہ لبرل ٹیکنالوجی کمپنی سے سخت نالاں ہے کہ سماجی میڈیا کمپنیوں نے لال قلعے پر حملے کے خلاف مودی سرکار سے تعاون نہیں کیا۔