شمالی کوریا نے امریکہ کے ساتھ سردمہری کی انتہا کردی ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کے مطابق صدر بائیڈن نے منتخب ہونے کے بعد شمالی کوریا سے متعدد بات مختلف ذرائع سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم انہیں کوئی جواب نہ ملا۔

امریکی میڈیا کے مطابق بائیڈن شمالی کوریا کے حوالے سے ڈیموکریٹ کی ماضی کی پالیسی میں تبدیلی کرنے کے خواہاں ہیں لیکن مشرق بعید کے ملک سے متعدد بار رابطے پر بھی کوئی جواب نہیں دیا جا رہا ہے۔ اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ نے نیویارک میں موجود سفارتی ذرائع سے بھی رابطہ کیا تاہم کوئی سنوائی نہ ہوئی۔
رائٹرز کی ایک خبر میں برطانوی ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ صدر بائیڈن کے آنے سے پہلے سے امریکہ کا شمالی کوریا کے ساتھ رابطہ نہیں، یعنی صدر ٹرمپ کے آخری کچھ ماہ میں بھی شمالی کوریا کے ساتھ رابطوں میں سردمہری تھی البتہ صدر بائیڈن کے آنے کے بعد مسلسل رابطے کی کوشش بھی ناکام جارہی ہے۔
ممکنہ طور پر شمالی کوریا کی سرد مہری کی وجہ امریکی منافقت ہے، امریکہ ایک طرف جنوبی کوریا کے ساتھ عسکری مشقوں میں مصروف ہے اور دوسری طرف دنیا کو باور کروانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ خطے میں امن کے لیے شمالی کوریا سے گفتگو کرنا چاہتا لیکن ملکی قیادت اسکے رابطوں پر جواب نہیں دے رہی۔
جنوبی کوریا کے عسکری ترجمان کا کہنا ہے کہ 9 روزہ عسکری مشقیں دفاعی نوعیت کی ہیں، جس میں وباء کے باعث انتہائی مختصر عملہ حصہ لے رہا ہے اور فوجی صرف سائبر آلات کو استعمال کرتے ہوئے حملے کی صورت میں دفاع کی تکنیکوں کی مشقیں کریں گے۔
یاد رہے کہ شمالی کوریا سے رابطے کرتے ہوئے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی کوریا کے ساتھ عسکری مشقیں بند کروا دی تھیں، جس سے دونوں ممالک میں اعتماد بحال کرنے میں مدد ملی تاہم صدر بائیڈن نے آتے ہی مشقوں کا دوبارہ آغاز کر دیا ہے۔
یاد رہے تعلقات میں بحالی کی کوششوں کے باوجود صدر ٹرمپ نے جوہری منصوبہ ختم کرنے تک شمالی کوریا پر سے معاشی پابندیاں ختم نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔