Shadow
سرخیاں
پولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئےیورپی کمیشن صدر نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر جوہری حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دے دیااگر خطے میں کوئی بھی ملک جوہری قوت بنتا ہے تو سعودیہ بھی مجبور ہو گا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرے: محمد بن سلمان

ترکی و یونانی وزرائے خارجہ کی کشیدگی کم کرنے کیلئے ملاقات تلخی و الزامات پر ختم

ترکی اور یونان کی روائیتی دشمنی اور بےاعتمادی ایک بار پھر سیاسی قائدین کے لیے تمام سفارتی آداب کو بھلا کر تلخی کا باعث بنی ہے۔ جمعرات کے روز دونوں ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ نے ملاقات کی اور متعدد اہم معاملات پر گفتگو ہوئی، ملاقات کے فوراً بعد دونوں ہم منصب سیاسی رہنما پریس کانفرنس کے لیے آئے جس کا مطلب تھا کہ ملاقات اچھی رہی، لیکن اچانک مشترکہ پریس کانفرنس الزامات کے تبادلے اور دھمکیوں میں بدل گئی۔

واضح رہے کہ دونوں ممالک کے مابین جاری حالیہ کشیدگی آگست 2020 میں شروع ہی تھی جس کا آغاز ترکی کے تحیققاتی بحری جہاز کا متنازعہ پانیوں میں گشت سے ہوا تھا۔ بحیرہ ایجین کا علاقہ قدرتی وسائل سے مالامال مانا جاتا ہے لیکن متنازعہ علاقہ ہونے کے باعث کوئی ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ ترکی کے علاقے میں تحقیق شروع کرنے پر یونان نے سخت مزاحمت کا اظہار کیا اور صورتحال فوجی پیش قدمی تک پہنچ گئی، لیکن بالآخر دونوں نیٹو اتحادیوں نے یورپی یونین کی مداخلت پر کشیدگی کو کم کیا جس کے نتیجے میں ترکی کو اپنا جہاز واپس بلانا پڑا۔ یونان کا مؤقف ہے کہ ترکی نے اسے اشتعال دلایا اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی جس پر اسے سزا ملنی چاہیے اور یورپی یونین کو ترکی پر معاشی پابندیاں لگانی چاہیے۔ تاہم ترکی کا مؤقف ہے کہ اس نے کوئی قانون نہیں توڑا، علاقے ترک سرحد کے زیادہ قریب اور عالمی قوانین کے تحت بھی ان پر ترکی کا زیادہ حق بنتا ہے۔

تنازعے کے بعد دونوں ممالک کی اعلیٰ سطحی قیادت کے مابین ہونے والی یہ پہلی باقائدہ ملاقات تھی اور امید کی جا رہی تھی کہ اس سے برف پگھلے گی۔ لیکن پریس کانفرنس میں یونانی وزیر خارجہ نے یورپی اتحاد میں شمولیت کے لیے ترکی کی حمایت اور مدد کی بات کرتے کرتے کہا کہ ترکی نے بحیرہ ایجین میں یونان کی علاقائی حدود کو پامال کیا، اور ترکی اکثر یونانی فضائی حدود کی خلاف ورزی بھی کرتا رہتا ہے جس پر اسے سزا ملنی چاہیے۔

یونانی وزیرخارجہ نیکوس دیندیاس کا کہنا تھا کہ یونان اپنے مؤقف میں واضح ہے؛ ترکی نے بین الاقوامی قانون توڑا ہے اور یونان کی خود مختاری کو پامال کیا ہے، اسے سزا ملنی چاہیے۔

یونانی وزیر خارجہ کے اچانک بدلتے رنگ دیکھ کر ترک وزیر خارجہ میلاد چاؤش اوعلو بھی خاموش نہ رہے اور کہا کہ ترکی ان خیالات سے بالکل بھی متفق نہیں، یہ الزامات ناقابل قبول ہیں، آپ اچانک رنگ بدلتے ہوئے اپنی عوام کے سامنے شیر بننے کے لیے ترکی پر الزام لگائیں اور  میں خاموش رہوں، ایسا نہیں ہوں سکتا، ترکی نے کبھی بھی کسی ملک کی خودمختاری میں مداخلت نہیں کی، تحقیق کے دوران یونانی حدود کی پامالی نہیں کی گئی۔ بلکہ یونان انسانی حقوق کی پامالی کرتے ہوئے اکثر مہاجرین کو ترکی کے پانیوں میں دھکیلتا ہے، اسے اس کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔

ترک وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہم ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کر دیں تو یہ فہرست کبھی ختم نہ ہو، اور اگر یونان اسے جاری رکھنا چاہتا ہے، کشیدگی چاہتا ہے تو ترکی بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔

اس تمام تلخی کے باوجود دونوں وزرائے خارجہ نے  بات چیت سے مسائل حل کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

2 × 2 =

Contact Us