کیوبا کمیونسٹ جماعت کے سربراہ راعل کاسترو نے عہدہ چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس موقع پر سابق صدر اور انقلابی رہنما فیڈل کاسترو کے بھائی کا کہنا تھا کہ وہ نوجوان نسل کو ملک کی قیادت سونپنا چاہتے ہیں، جو استعماری قوتوں کے خلاف زیادہ قوت سے لڑ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ کاسترو خاندان 1961 سے کیوبا کی کیمونسٹ جماعت کی قیادت کر رہی ہے۔
ہوانا میں کنونشن تقریب سے خطاب میں راعل کاسترو کا کہنا تھا کہ وہ جب تک زندہ ہیں، کیوبا اور ملکی نظریے کے دفاع کے لیے ہمیشہ لڑنے کو تیار رہیں گے۔ راعل 2011 میں پارٹی کے سیکرٹری جنرل بنے تھے، اس سے پہلے فیڈل کاسترو 1961 سے عہدے پر فائز تھے۔ 1959 میں کامیاب بغاوت کے بعد سے کاسترو خاندان ہی ملک کو استعماری قوتوں سے بچائے ہوئے ہے۔
راعل کاسترو 2018 میں ملک کی صدارت سے بھی الگ ہو گئے تھے لیکن کیمونسٹ جماعت کے سربراہ کا عہدہ انہوں نے اپنے پاس رکھا تھا۔ یاد رہے کہ کیوبا دنیا کی ان چند ریاستوں میں سے ہے جہاں اب بھی اشتراقیت بطور نظام رائج ہے۔
سن 2011 میں راعل کاسترو نے کچھ ترامیم کے ذریعے مارکیٹ کو کھولا تاہم وسیع تناظر میں کیوبا اب بھی ایک اشتراکی ریاست ہے۔ کیوبا کا نظام صحت اور خواندگی بیشتر سرمایہ دارانہ ریاستوں سے بہتر ہے، ملک میں بے جا تصرف کی اشیاء کا داخلہ ممنوع ہے اور تنخواہ اب بھی 20 ڈالر فی ماہ ہے۔ 1 کروڑ دس لاکھ آبادی والے ملک میں صرف 1 لاکھ 73 ہزار کاریں ہیں۔
ملک اور جماعت کی بھاگ دوڑ سنبھالنا کسی بھی رہنما کے لیے آسان نہ ہو گا، خصوصاً معیشت اور امریکہ کے ساتھ تعلقات بڑے مسائل ہوں گے۔