امریکہ شدید سماجی تقسیم سے دوچار ہے، اگر فوری فوجداری قوانین اور پولیس کے نظام میں اصلاحات نہ کی گئیں تو مسلح شورش شروع ہو سکتی ہے۔ یہ کہنا ہے مسلح شورش کے ماہر تیمیتوپ اوریولا کا، جو افریقہ میں بغاوتوں کے ماہر مانے جاتے ہیں۔
جامعہ البرٹا کے پروفیسر اور افریقی سکیورٹی جریدے کے مدیر اعلیٰ تیمیتو اوریولا دنیا بھر میں مسلحہ سماجی بغاوتوں پر گہری نظر رکھتے ہیں، اوریولا کا کہنا ہے کہ امریکی سماج میں بڑھتی کشیدگی واضح طور پر خانہ جنگی اور مسلح شورش کا اشارہ ہے۔
اپنے نئے مقالے میں سیاہ فام امریکیوں کے پولیس کے ہاتھوں بڑھتے قتل اور سماجی تعصب پر تیمیتوپ کا کہنا ہے کہ حالات بہت بگڑ گئے ہیں، حکومت نے فوری طور پر پولیس میں اصلاحات نہ کیں تو آئندہ پانچ سال میں مسلح شورش شروع ہو سکتی ہے، جس کا نشانہ پولیس ہو گی۔
تیمیتوپ نے میکسیکو میں زاپاتستا اور نائیجیریا میں ہونے والی مسلح بغاوتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں بھی سیاہ فام شہری ویسے ہی دباؤ سے گزر رہے ہیں، مسلحہ گروہ تشکیل پا رہے ہیں، جو کسی بھی وقت مرکزی نظام کے خلاف بغاوت کا اعلان کر سکتے ہیں۔ تیمیتوپ کے مطابق انتیفا کی تحریک اسکی بہترین مثال ہے۔
سماجی ماہر کا کہنا ہے کہ مسلح شورش کسی ایک واقعے یا وجہ کے نتیجے میں پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے بہت سے سماجی، سیاسی اور معاشی محرکات ہوتے ہیں، لیکن اچانک کوئی ایک واقع ان سب گروہوں کو اکٹھا کر دیتا ہے اور پھر شورش کو روکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
تیمیتوپ کا مزید کہنا ہے کہ جب مسلح شورش کی بڑی وجوہات میں سے ایک کسی قوم کا نسلوں تک ناانصافی کے احساس کے ساتھ جینا بھی ہے۔ یہ احساس انسانوں کو گہرے صدمے میں رکھتا ہے اور یہ بالآخر مسلح مزاحمت کو دعوت دیتا ہے۔
امریکہ میں کورونا اور دیگر موذی امراض کا زیادہ شکار بھی سیاہ فام افراد ہی ہو رہے ہیں جس کے باعث بھی ان افراد میں جبر کا احساس اور بغاوت کے زیادہ جذبات پائے جاتے ہیں۔ سیاہ فام افراد کی معاشی بدحالی اور امریکی تاریخ میں ان کے ساتھ روا رکھے مظالم نے بھی نوجوان نسل میں نفرت و بغاوت کو بڑھایا ہے۔
امریکی جیلوں میں قیدیوں کی بڑی تعداد اور اس مدعے کو لے کر عام بیانیہ بھی سیاہ فام شہریوں میں بغاوت کو ابھارتا ہے، اگرچہ سماجی ماہرین اس کے لیے نامناسب و متعصب حالات کو زمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن سفید فام نسل پرست افراد کے زیر اثر عمومی بیانیہ تفریق کو مزید ہوا دیتا ہے جس سے بغاوت کے جذبات کو مزیر پختگی ملتی ہے۔ مقالے میں تیمیتوپ نے ایک مطالعے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکہ میں بڑے جرائم میں زیر قید قیدیوں کی تعداد 8٪ ہے لیکن سیاہ فام امریکیوں کی تعداد 33٪ سے بھی زائد ہے۔
مسلح شورش کی نوعیت کے حوالے سے تیمیتوپ کا کہنا ہے کہ یہ بڑے شہری مراکز میں گوریلا قسم کی تحریک ہو سکتی ہے، جس میں اولاً چھوٹے ہتھیاروں اور دھماکہ خیز مواد کو استعمال کیا جائے گا، اور اس کا براہ راست نشانہ قانون نافذ کرنے والے ادارے خصوصاً پولیس ہو گی۔ تیمیتوپ کا کہنا ہے کہ امریکہ میں ہونے والی شورش کو کنٹرول کرنا ناممکن سا ہو گا، کیونکہ گروہوں کے پاس اسلحے کی بھرمار ہو گی، امریکی معاشرہ سب سے زیادہ اسحلے سے لیس ایک معاشرہ ہے۔ جہاں ہر 100 افراد کے پاس 120 ہتھیار ہیں، اور انکی مجموعی تعداد 39 کروڑ 30 لاکھ سے بھی زائد ہے۔ اور بگڑتے حالات کے ساتھ سیاہ فام رہنما بھی مشتعل گروہوں کو روک نہ سکیں گے۔
واضح رہے کہ امریکہ میں سیاہ فاموں کی مسلح شورش کی پیشنگوئی 1963 میں جنوبی افریقہ کے معروف سیاسی رہنما نیلسن منڈیلا بھی کر چکے ہیں۔
بغاوت کے جرم میں سنائی سزا پر نیلسن منڈیلا کا کہنا تھا کہ “میں نے بغاوت کسی عداوت میں نہیں کی، نہ میں نے تشدد کا راستہ اس لیے اپنایا کہ مجھے یہ پسند ہے، ہم نے ایسا ملکی سیاسی حالات، برسوں کے جبر اور استحصال کے جواب میں بہت غوروفکر کے بعد شروع کیا ہے۔ آغاز میں ہم نے قانون کے سامنے احتجاج کیا، اور ہر طرح کے تشدد سے اجتناب کیا، لیکن جب اسے بھی جبر سے روکا گیا تو ہم نے تشدد کے جواب میں تشدد کا راستہ اپنایا۔
تیمیتوپ کا کہنا ہے کہ اب بھی اس شورش کو پولیس میں اصلاحات اور فوجداری قوانین کو ٹھیک کر کے روکا جا سکتا ہے۔