روسی فضائیہ نے شام میں ایک عسکری کیمپ پر حملے میں 200 گھس بیٹھیوں کو مارنے کا دعویٰ کیا ہے۔ حملے میں 24 گاڑیاں اور 1/2 ٹن سے زائد دھماکہ خیز مواد تباہ کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ حملہ پالمیرا کے شمال میں کیا گیا تھا۔
شام میں تعینات روسی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انہیں حساس اداروں کی جانب سے شام کے صحرا میں دو خفیہ عسکری کیمپوں کی اطلاعات تھیں، جس کی تصدیق کرنے کے بعد وہاں فضائی حملہ کیا گیا۔ کیمپ میں دہشت گردوں کو بم بنانے، حملہ آور جتھے تیار کرنے کی تربیت دی جاتی تھی۔ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ کیمپ کا علاقہ شامی حکومت کے زیر اثر نہیں تھا، البتہ اس کے انتہائی قریب امریکی فوج کے زیر انتظام علاقہ ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ نے دمشق سے بغداد کی سڑک پر ایک غیر قانونی چھاؤنی بنا رکھی ہے، جس پر شامی حکومت کئی بار اعتراض کر چکی ہے اور معاملہ عالمی اداروں میں بھی اٹھایا جا چکا ہے۔ روسی ترجمان کا کہنا ہے کہ علاقہ دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور یہاں سے ہی ملک بھر میں حملے منظم کیے جاتے ہیں۔
حالیہ حملہ کس گروہ کے کیمپ پر کیا گیا، اس حوالے سے روسی فوج کے ترجمان نے کوئی تفصیل نہیں دی۔ البتہ روسی میڈیا کے مطابق یہ داعش، القاعدہ یا اس سے منسلک ترکی کا حمایت یافتہ گروہ حیات تحریر الشام کا کیمپ ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ روس نے شام میں 2015 میں فوجیں اتاریں تھیں، جسکی باقائدہ دعوت شامی حکومت نے دی تھی۔ شام میں 2011 میں عوامی بغاوت شرو ع ہوئی تھی اور 2015 تک ملک کا 70٪ علاقہ داعش کے کنٹرول میں چلا گیا تھا۔ بشار الاسد کی حکومت نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے روس کو مدد کی درخواست کی تھی۔
روسی مدد سے شام میں ایرانی، امریکی اور دیگر گروہوں کا اثرورسوخ کام ہوا اور اب وہ صرف ادلیب تک محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔
شام میں اس وقت التنف اور اردن کا سرحدی علاقہ امریکی فوج، شمال مشرقی علاقہ امریکی حمایت یافتہ کردوں اور ادلب کا علاقہ ترک فوج کے زیر کنٹرول ہے۔