روس کی داخلہ وزارت نے 122 غیر ملکیوں کو اس سال ماسکو میں ہونے والے احتجاج میں شرکت کرنے کی پاداش میں ملک میں داخلے پر پابندی لگادی ہے۔ ان افراد کا ملک میں 40 سال تک داخلہ ممنوع قرار پایا ہے۔
ماسکو پولیس کے شعبہ ہجرت کے سربراہ نے سکیورٹی سے متعلق منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں اس بات کا فیصلہ کیا کہ ان سب لوگوں پر طویل عرصے تک پابندی لگائی جائے گی جو عوامی تنظیم و تحفیظ کے لئے خطرہ بنیں گے۔ ڈمیرٹری سیرگینکو نامی آفسر نے کہا کہ “امیگریشن محکمے نے ایک فیصلے کے تحت 122 غیر ملکی شہریوں، جو ماسکو میں ایک ممنوعہ احتجاج میں شریک ہوئے تھے، پر 40 سال کے لئے ملک میں داخلے کی پابندی لگائی ہے۔”
اگرچہ مذکورہ آفیسر نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ ان لوگوں نے کس احتجاج میں شرکت کی تھی، تاہم اندازہ یہ لگایا جارہا ہے اس سال جنوری میں سماجی کارکن الیگژے ناونلے کی جیل سے رہائی کے حق میں ہونے والے جلوس میں شریک ہوئے ہونگے۔
ناوالنے کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ 23 جنوری کو ہونے والے مظاہرے میں چالیس ہزار کے قریب افراد شریک ہوئے تھے، جبکہ حکومتی اعداد و شمارکے مطابق صرف چار ہزار لوگ اس احتجاج میں شامل ہوئے۔ صرف ایک ہفتے بعد ہی ایک دوسرا احتجاج بھی منعقد ہوا جس میں لوگوں کی تعداد مزید کم رہی۔
یاد رہے کہ فروری میں ماسکو نے جرمنی، سویڈن اور پولینڈ کے سفراء کو بھی متعلقہ سفارت خانوں کی مخالفت کے باوجود احتجاج میں شرکت کرنے پر ملک بدر کردیا تھا۔
اس حوالے سے روسی مؤقف ہے کہ مغربی ممالک روس کے ایک خود مختار ریاست ہونے کے ناطے اس کے اندورنی معاملات میں دخل نہ دیں، اور سب اپنے اندرونی مسائل دیکھنے پر توجہ دیں”۔
وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان ماریہ سخاروف نے ماسکو بزنس ڈیلی کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ روس کے معاملات میں مداخلت کرنے والے ممالک اپنے درجنوں مسائل ہیں، انہیں ان پر توجہ دینی چاہیے۔
یاد رہے کہ روس نے گزشتہ تین ماہ میں 24455 غیر ملکی افراد کو ملک میں انتشار پھیلانے کے خدشے کے تحت ملک میں داخل ہونے سے روکا ہے۔