افغانستان میں دو دہائیوں پرمحیط جنگ کے ممکنہ خاتمے کی خبروں کے ساتھ ہی امریکی لبرل میڈیا میں ایک بار پھر دہشت گردی کے اضافے کے خطرے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ خصوصاً سی این این نامعلوم عسکریت پسندوں کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں پیش پیش ہے۔
گزشتہ روز سی این این نے القاعدہ کے دو مبینہ کارکنوں کے ساتھ گفتگو نشر کی ہے جس میں انہیں افغانستان سے امریکی انخلاء کے ساتھ ہی حملوں میں اضافہ کرنے کے ارادے کا اظہار کرتے دکھایا گیا ہے۔ انٹرویو سے صحافی یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ “جب تک دشت گردوں کو باقی اسلامی ممالک سے بھی بے دخل نہیں کیا جاتا، امریکہ کے خلاف دہشت گردی جاری رہے گی۔” سی این این انٹرویو میں یہ دعویٰ بھی دکھایا گیا ہے کہ القائدہ اور دیگر تنظیموں کے دہشت گرد “امریکی افواج کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد واپسی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں”۔
القاعدہ اور طالبان کے مابین کشیدہ تعلقات کے دستاویزی ثبوتوں کے باوجود سی این این نے نامعلوم جہادیوں کے اس دعویٰ کو تشہیر دی ہے جس میں وہ دونوں تنظیموں کے تعلقات میں بہتری کا دعویٰ کرتے ہیں۔ سی این این انٹرویو میں یہ پراپیگنڈا بھی کیا گیا ہےکہ طالبان القاعدہ کے ساتھ رابطے ختم کرنے کے دعوے میں واشنگٹن کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ صدر جوبائیڈن نے اپنے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں طالبان کے ساتھ ہوئے امن معاہدے کے تحت انخلاء کی تاریخ میں یکطرفہ توسیع کرتے ہوئے اب یکم مئی کے بجائے 9/11 سے قبل انخلاء کا اعلان کیا ہے۔ تاہم اب بھی امریکی لبرل میڈیا اسے جلد بازی اور امریکی مفاد کے خلاف قرار دے رہا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے معروف اداروں کے علاوہ اسلحہ ساز کمپنیوں اور جنگی لابی کے زیر اثر موجودہ قومی سلامتی کے مشیران بھی افغانستان سے انخلاء کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔ سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنز نے بھی کانگریس کو کہہ چکے ہیں کہ انخلاء سے خطے میں دہشت گردی میں اضافے کا خطرہ موجود ہے، جبکہ جنرل فرینک مک کینزی، سینٹ کام کے حالیہ سربراہ اور مشرق وسطیٰ و وسط ایشیائی ریاستوں میں تعینات امریکی فوج کے کمانڈر نے بھی افغانستان سے انخلاء کے نتیجے میں جنگ سخت ہو جانے کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔