امریکی ریاست فلوریڈا کی قانون ساز اسمبلی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر سیاست دانوں کے کھاتے بند کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے، پابندی کی خلاف ورزی کرنے والی کمپنی پر یومیہ ڈھائی لاکھ ڈالر جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔
فلوریڈا اس نوعیت کی قانون سازی کرنے والی پہلی امریکی ریاست بن گئی ہے۔ قانون کے حامیوں نے قانون کو آزادی اظہار رائے کی فتح قرار دیا ہے جبکہ ناقدین اس کو سیاسی انتقام پر مبنی اقدام قرار دے رہے ہیں۔ ایس بی 7072 کے تحت ، فیس بک اور ٹویٹر جیسی کمپنیاں سیاسی فائدے کے لیے انتخابی امیدوار کو مستقل طور پر بلیک لسٹ کرنے سے معذور قرار دی گئی ہیں۔ ریاستی سطح کے انتخابات میں امیدوار کو جان بوجھ کر پابندی لگانے کے خلاف 250000 ڈالر یومیہ کا جرمانہ عائد ہوگا، جب کہ باقی عہدوں کے لئے انتخابات میں حصہ لینے والوں پر پابندی کے نتیجے میں 25000 ڈالریومیہ کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ قانون کا اطلاق صرف 100 ملین سے زائد پیروکار رکھنے والے پلیٹ فارموں پر ہوگا۔ قانون کے تحت شدید حالات میں ان کمپنیوں کے پاس 14 دن کے لیے سیاستدانوں کا کھاتہ معطل کرنے کا اختیار تو ہو گا لیکن مستقل پابندی عائد نہ کر سکیں گے۔ جبکہ انفرادی پیغام یا ویڈیو کو ویب سائٹ کے رہنما اصولوں کی خلاف ورزی کرنے پر ہٹانے کی اجازت ہو گی۔
قانون کی متفقہ طور پر فلوریڈا کے دونوں ایوانوں نے منظوری دی ہے، اور توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ ہفتے میں ریاستی گورنر رون ڈی سینٹس اس پر دستخط کر کے اسے باقائدہ لاگو کر دیں گے۔
یاد رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سماجی میڈیا کھاتے جنوری میں کیپیٹل ہل پر ہوئے دنگوں میں عوام کو اکسانے کے باعث تاحال بند ہیں۔