Shadow
سرخیاں
پولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئےیورپی کمیشن صدر نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر جوہری حملے کا ذمہ دار روس کو قرار دے دیااگر خطے میں کوئی بھی ملک جوہری قوت بنتا ہے تو سعودیہ بھی مجبور ہو گا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرے: محمد بن سلمان

فرانس میں جرنیلوں کے بعد پولیس افسران کا بھی تشویش سے بھرا خط سامنے آگیا: ملک میں بڑھتی انتظامی ناکامی پر سیاسی حلقے پریشان

فرانسیسی پولیس کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے ان 100 سے زائد حاضر ملازمت پولیس اہلکاروں پر شدید تنقید کی ہے جنہوں نے صدر کو پولیس کے لیے اضافی حقوق کے متنازعہ قانون کے لیے خط لکھا یا اسکی توثیق کی تھی۔

خط پر لکھا ہے کہ پولیس پر حملے، فرانس کی جمہوری اقدار، رواج اور معاشرتی نقشے کو مسترد کررہے ہیں۔ خط میں رواں ماہ جنوبی شہر ایگونن میں منشیات فروشوں پر چھاپے کے دوران ہلاک ہونے والے ایک افسر ایرک میسن کی موت کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

خط میں ملک کی مسلم آبادی کا نام لیے بغیر اشارتاً کہا گیا ہے کہ مسلح اور نقاب پوش افراد گروہوں کی شکل میں پورے ملک میں پھیل رہے ہیں، ایسے لگتا ہے کہ ملک فرانس کئی حصوں میں بٹ گیا ہے۔

واضح رہے کہ اسی منطق پر مبنی اس سے پہلے بھی ایک کھلا خط صدر میخرون کو 93 ریٹائر اور فعال فوجی اہلکار بھی لکھ چکے ہیں۔ جس میں انہوں نے قومی سلامتی اور امن عامہ کے ضمن میں فرانس کو مسلم اور افریقی باشندوں سے درپیش سکیورٹی کے سنگین مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے فوری ضروری اقدامات کا مطالبہ کیا تھا۔

پولیس افسران کی جانب سے لکھے خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پولیس کو مادی، اخلاقی اور قانونی طور پر مزید مظبوط کیا جائے تاکہ وہ سڑک کنارے اپنی جان کو خطرے میں ڈالے بغیر فرائض سرانجام دے سکیں۔

انہوں نے مزید لکھا ہے کہ  وقت آگیا ہے کہ مؤثر اقدامات کیے جائیں تاکہ ریاست کا اقتدار واپس لیا جائے اور ناکام جگہوں پر بحال کیا جائے۔

فرانس کے ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار فریڈرک واکس نے اس خط کے جواب میں کہا ہے کہ پولیس افسران فریضہ تحمل کے مکلف ہیں، یہ ایک ایسا قانون ہے جس میں سرکاری ملازمین سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ عوامی سطح پر ذاتی رائے کا اظہار کرتے وقت تحمل اور اعتدال کا مظاہرہ کریں گے۔

واکس نے لکھا ہے کہ خط کے پیچھے محرکات سے قطع نظر، پولیس اہلکاروں کا اقدام پولیس کے ادارے کو مضبوط کرنے کی بجائے مزید کمزور کرگیا ہے۔ انہوں نے استدلال کیا ہے کہ فرانسیسی پولیس فورس کو پہلے سے کہیں زیادہ اپنے اندر خود اعتمادی، اتحاد اور تقسیم کے جذبوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے نہ صرف پولیس افسران کو مزید لیس کیا ہے بلکہ انکے آلات کے تحفظ کا بھی خیال رکھا ہے اور مزید اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔

یہ تبصرہ فرانسیسی قدامت پسند نیوز میگزین والیرس ایکٹوئیلس میں شائع دو خطوط کی اشاعت کے بعد سامنے آیا ہے۔ پہلا خط اپریل میں شائع ہوا تھا اور اس پر 25 ریٹائرڈ جرنیلوں اور ایک ہزار سے زائد سابق اور موجودہ فوجیوں نے دستخط کیے تھے۔ اس میں ایک ممکنہ خانہ جنگی کے بارے میں بات کی گئی تھی اور حکام پر زور دیا گیا تھا کہ وہ ملک میں انتشار کے خلاف مداخلت کریں۔ خط میں خاص طور پرصدر میخرون سے کہا گیا تھا  کہ وہ “اسلام پسندی” اور “تھانوں پر حملہ کرنے والے نقاب پوش سیاہ فام افراد” کے خلاف قانون سازی کریں۔

دوسری درخواست گمنام تھی، جس میں مصنفین نے خود کو نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے سپاہی کے طور پر بیان کیا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ فرانس کو “ایک ناکام ریاست” بننے سے روکنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔ ویلیرس ایکٹوئیلس نے بتایا کہ یہ خط، جو 11 مئی کو شائع ہوا تھا، کو ویب سائٹ پر 24 لاکھ سے زیادہ منفرد صارفین نے پڑھا ہے اور جمعہ تک اس پر مزید 2 لاکھ 87 ہزار 578 دستخط موصول ہوئے ہیں۔

ان خطوط نے میڈیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی ہے اور فرانس میں سیکولر شدت پسندی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ قدامت پسند نیشنل ریلی پارٹی کی سربراہی کرنے والی میرین لی پین نے کہا کہ وہ فوجیوں کے ذریعہ ظاہر کیے جانے والے تشویش سے متفق ہے۔ جب کہ سرکاری عہدیداروں اور اعلیٰ فوجی قیادت نے استدلال کیا ہے کہ ان درخواستوں کا لب و لہجہ نامناسب ہے، اور فوج کو سیاسی امور میں غیر جانبدار رہنا چاہیے۔

مسلح افواج کے سربراہ کے چیف آف اسٹاف جنرل فرانکوئس نے کہا ہے کہ فعال فوجی اگرعوامی سطح پر ایسے بیانات دینا چاہتے ہوں تو انہیں فوج  سے مستعفی ہونا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حاضرفوجی سروس کے  وہ جوان جن کی شناخت اپریل کے خط پر دستخط کرنے والوں کی حیثیت سے کی گئی ہے ، انہیں غیر جانبداری کی حد توڑنے کے لیے فوجی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

one × three =

Contact Us