چینی نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی پر غزہ میں جاری جنگ پر ایک پروگرام کو فلسطین پر قابض صیہونی انتظامیہ نے یہود دشمن قرار دیا ہے۔ پروگرام میں غزہ میں جاری صیہونیوں کے مظالم کو زیر بحث لایا گیا ہے اور اسکا موازنہ دنیا کے مختلف ممالک میں امریکی حمایت سے ہونے والے تشدد سے بھی کیا گیا ہے۔
پروگرام پر چین میں صیہونی انتظامیہ کے سفارت خانے نے چینی حکومت سے سخت احتجاج کیا ہے اور اسے یہودیوں سے نفرت کا اظہار قرار دیا ہے۔ اپنے بیان میں صیہونی سفیر کا کہنا تھا کہ ؛”انکے خیال میں یہودی دنیا چلا رہے ہیں کا سازشی نظریہ اپنی موت آپ مر چکا ہے لیکن یہودیت سے نفرت نے ایک بار پھر اپنا گندا چہرہ دکھایا ہے، چینی سرکاری ٹی وی پر ہم اسے دیکھ کر ایک بار پھر خوف میں مبتلا ہو گئے ہیں۔”
چینی ٹی وی پروگرام کا مرکزی مدعہ تھا کہ کیا فلسطین پر صیہونی قبضے کی امریکی حمایت جمہوری اقدار پر مبنی ہے یا اس میں امریکی معیشت اور وزارت خارجہ پر قابض چند مٹھی بھر صیہونیوں کا ہاتھ ہے؟
پروگرام میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی صیہونی شعبہ مالیات اور انٹرنیٹ کی دنیا پر بھی مظبوط گرفت رکھتے ہیں، اس لیے انکا اثرورسوخ غیر جمہوری طور پر انتہائی زیادہ ہے۔
قابض صیہونی انتظامیہ کے سفارت خانے نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ انہیں احتجاج پر اب تک چینی سرکار سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا البتہ وزارت خارجہ کے ترجمان نے اتنا ضرور کہا ہے کہ انہیں اس حوالے سے کچھ خبر نہیں، اس لیے کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔
واضح رہے کہ چین فلسطینیوں کا پرانا حامی ہے۔ فلسطین میں جاری حالیہ تشدد کے دوران بھی چین نے امریکہ پر سلامتی کونسل میں تشدد کی مذمتی قرارداد روکنے پر سخت تنقید کی ہے، جسے امریکہ نے صرف اس لیے روکا کہ اسکے خیال میں قرارداد سے تشدد کو روکا نہیں جا سکے گا۔
یاد رہے کہ چین ان چند غیر مسلم ممالک میں سے ہے جس نے ایک لمبے عرصے تک فلسطین پر صیہونی قبضے کو قبول نہ کیا یعنی اسرائیل کے ریاستی وجود کو تسلیم نہ کیا۔ چین نے 1992 میں اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کیا اور اس کے صیہونی ریاست سے تعلقات بحال ہوئے۔
یہودیت ان چند مذاہب میں سے ایک ہے جسے چین میں بطور مذہب نہیں مانا جاتا، اس کے علاوہ چینیوں میں یہودیوں سے متعلق چالاک اور اجارہ داری قائم کرنے والے کاروباری کی رائے بھی بہت مقبول ہے۔