روس ڈالر کی اجارہ داری کو ختم کرنے کی اپنی پالیسی سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نظر نہیں آرہا ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ کے جاری کردہ نئے اعداد وشمار کے مطابق فروری سے مارچ کے دوران روس نے اپنے زرمبادلہ کے ذخائر سے ایک ارب امریکی ڈالر دیگر سکوں یا سونے میں منتقل کیے ہیں۔
گزشتہ سال فروری میں بینک آف روس کے ڈالر ذخائر 5،756 ارب ڈالر تھے، جو صرف ایک ماہ 3.976 ارب ڈالر رہ گئے۔ 2014 میں شروع ہونے والی اس پالیسی کے نتیجے میں روس اب تک صرف 170 ارب ڈالر خریدے ہیں، وگرنہ روس مقامی یا ڈالر کے علاوہ دیگر سکوں میں زرمبادلہ جمع کر رہا ہے۔
دراصل 2014 میں امریکہ نے روس پر معاشی پابندیاں لگانا شروع کیں جس کے جواب میں روس نے امریکی ڈالر کے خلاف محاذ کھولا جو تاحال جاری ہے، روسی اقدامات میں 2018 میں تیزی اور مزید سنجیدگی آئی جب اس نے اچانک خزانے سے امریکی تعداد کی تعداد کو نصف کر دیا اور اس رقم سے سونا، یورو، اور یوآن خرید لیے۔ یوں 2018 سے روس نے دنیا کے بظاہر مقبول اور محفوظ سکے پر انحصار کم کرنا جاری رکھا۔ گزشتہ برس کے اعدادوشمار کے مطابق 2020 کی پہلے سہ ماہی میں روس اور چین کے مابین تجارت میں ڈالر کا حصہ پہلی بار 50٪ سے بھی کم ہو گیا ہے۔ اس سے محض چار سال قبل باہمی تجارت میں یہ حصہ 90 فیصد سے بھی زیادہ تھا۔
رواں برس فروری میں روس نے اپنی قومی دولت کے ڈھانچے کو تبدیل کیا ہے اور اب ڈالر اور یورو میں کمی کر کے یوآن اور ین میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اس وقت روسی خزانے کا صرف 35 فیصد امریکی ڈالر اور برطانوی پاؤنڈ میں ہے۔ فروری میں روسی نائب وزیر خارجہ سیرگئی ریابکوف نے ایک امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں کہا تھا کہ امریکی ڈالر ایک زہر ہے، اس پر انحصار کم کرکے روس دنیا کے لیے نہ صرف ایک مثال بنے گا بلکہ ایک بہترین خدمت بھی انجام دے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں امریکی مالی اور معاشی نظام کی مستقل دشمن سے خود کو بچانے کے لیے اس زہر پر انحصار ختم کر دینا چاہیے، ہمیں ڈالر کو ہر کام میں مرکزی حیثیت دینا ترک کر دینا چاہیے۔