روس اور امریکہ کے اعلیٰ سفارتکار براعظم انٹارکٹکا میں بڑھتے تناؤ کو کم کرنے کے لیے بات چیت کا آغاز کررہے ہیں۔ دونوں ممالک عرصۃ دراز سے ایک دوسرے کو منجمند براعظم میں اشتعال انگیزی کا زمہ دار ٹھہراتے آ رہے ہیں، اور اسے خطے میں اپنے مفادات اور قومی سلامتی کا مسئلہ بنا کر عالمی کشیدگی کو مزید بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔
روسی وزارت دفاع نے اپنے حالیہ بیان میں علاقے میں ایس یو 34 لڑاکا طیاروں کا دستہ تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ روسی 45ویں فضائی یونٹ کے سربراہ میجر جنرل ایگور چورکن نے کہا ہے کہ اس سے روس خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ میں بہتر فیصلے کر سکے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنگی طیارے براعظم میں ہر طرح کی عسکری نقل و حرکت پر نظر رکھ سکیں گے، جو انکے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔
گزشتہ روز امریکی محکمہ خارجہ کے ایلچی برائے انٹارکٹکا جم ڈی ہارٹ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ امریکہ کو براعظم پر روسی افواج کی تعیناتی پر تشویش ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ ان سرگرمیوں کا قومی سلامتی کے نکتہ نظر سے جائزہ لے رہا ہے، روسی افواج کی بعض سرگرمیاں مبہم، اشتعال انگیز اور غیر پیشہ ورانہ ہیں، امریکہ مناسب حکمت عملی اپنائے گا۔
تاہم ڈی ہارٹ انٹارکٹکا کونسل کے اجلاس سے بھی پرامید ہیں، انکا کہنا ہے کہ وہ باہمی تعاون کے نظریے پر گامزن ہیں تاکہ خطے میں امن کو برقرار رکھا جا سکے۔
تاہم دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے کہا ہے کہ روس خطے میں غیر قانونی سمندری حدود کو بڑھانے کے دیرینہ دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کررہا ہے۔ جس پر روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروو نے واضح طور پر کہا ہے کہ خطے کی روسی ملکیت میں کوئی شک نہیں، اور ہم بلاشبہ اپنی سرزمین کو محفوظ رکھنے کے زمہ دار ہیں، روسی سرگرمیاں بالکل جائز اور قانونی ہیں۔