روسی صدر ولادیمیر پوتن نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد عراق اور شام سے دہشت گرد براستہ ایران افغانستان میں منتقل ہو رہے ہیں, صدر پوتن نے صورتحال پر تحفطات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے وسط ایشیائی ریاستیں شدید خطرے کا شکار ہو گئی ہیں۔
سابقہ سوویت ریاستوں کی تنظیم؛ خودمختار ممالک کی دولت مشترکہ تنظیم کے سربراہی اجلاس سے قبل بیان جاری کرتے ہوئے صدر پوتن کا کہنا تھا کہ خطے میں دہشت گردوں کی بڑھتی تعداد سے نظریں نہیں چرا سکتے، آئندہ علاقائی تنظیم کے اجلاس میں مدعے پر تفصیلی بحث کی جائے گی۔ تنظیم اس مدعے پر غور کرے گی کہ کیسے ہمسایہ ممالک میں عدم استحکام کو روکا جا سکتا ہے اور اس کے خطے پر اثرات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
روسی صدر اپنے بیان میں مزید کہا کہ افغانستان میں صورتحال انتہائی پیچیدہ ہو چکی ہے، اور ہم اس سے بخوبی آگاہ ہیں، داعش سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں کے جنگجو عراق اور شام سے براستہ ایران افغانستان منتقل ہو رہے ہیں۔ اس کے افغانستان کے ہمسایہ ممالک پر گہرے اثرات ہوں گے، جن میں خصوصاً خودمختار ممالک کی دولت مشترکہ تنظیم کے ممالک شامل ہیں۔
واضح رہے کہ روسی صدر افغانستان میں امارات اسلامیہ کے قیام کے شروع سے ہی مخالف رہے ہیں، انکا مؤقف ہے کہ اس سے وسط ایشیائی ریاستوں میں عدم استحکام پھیلے گا اور روس سے اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکےگا۔ اس کے علاوہ مہاجرین کا سمندر بھی خطے کو بری طرح متاثر کرے گا۔ انکا مزید کہنا تھا کہ ہم یہاں یہ بھی کنٹرول نہیں کر سکتے کہ یہ مہاجرین کون ہیں، انکی حقیقی شناخت کیا ہے اور ان کی تعداد ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ہے۔ ہزاروں کلومیٹر لمبی سرحد سے یہ لوگ آسانی سے گاڑی، حتیٰ کہ گدھے پر سوار ہو کر وسط ایشیائی ممالک میں داخل ہو سکتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ہم مہاجرین کی اوٹ میں جنگجوؤں کو اپنےممالک میں داخلے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ جنگجو وسط ایشیائی ممالک میں اسلام پسندوں کے معاون بن سکتے ہیں اور علیحدگی کی تحریکوں کو ہوا مل سکتی ہے۔ ہم کسی صورت نوے اور 2000 کی دہائی کی صورتحال کا دوبارہ سامنا نہیں کرنا چاہتے۔
کل بروز منگل شروع ہونے والے اجلاس میں 9 ممالک کے سربراہ ملیں گے جس میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک ازبکستان اور تاجکستان کی قیادت بھی شریک ہو گی۔
یاد رہے کہ تمام تحفظات کے باوجود روسی قیادت نے طالبان کی قیادت کو ملاقات کی دعوت دی ہے جس میں چینی سفارتکاروں کو بھی دعوت دی گئی ہے۔ ملاقات آئندہ ہفتے متوقع ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور دلچسپ امر یہ ہے کہ اگرچہ روس نے تاحال امارات اسلامیہ افغانستان کی حکومت کو منظور نہیں کیا تاہم روسی سفارت خانہ کابل میں کام کر رہا ہے اور اس کے طالبان قیادت کے ساتھ براہ راست رابطے بھی ہیں۔