سویڈن کی حکومت نے 12 سال کی کم عمر کے بچوں کو جنس تبدیل کرنے کی اجازت دینے کا قانون لانے کی پیشکش کی ہے۔ یورپی ملک کے وزیر برائے سماجی بہبود نے قانونی مسودے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب بچوں کو انکی پسند کی جنس منتخب کرنے کی اجازت ہو گی اور کسی قسم کے طبی معائنے یا ڈاکٹری اجازت کی قانونی بندش بھی نہیں رہے گی۔
مقامی میڈیا کے مطابق نئے قانونی مسودے کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں حالیہ قانون میں ترمیم کر کے جنس تبدیل کرنے والے کو قومی اندراج کی اجازت دی جائے گی، اور دوسرے حصے میں شخص کو جنس میں طبی تبدیلی کی مکمل آزادی دی جائے گی۔
حالیہ قانون کے مطابق جنس تبدیلی کے لیے طبی معائنہ اور ڈاکٹر کی مشروط منظوری یعنی ہارمون کے مطابق انتخاب کی شرط لاگو تھی، اس کے علاوہ کم از کم عمر 18 برس مقرر تھی۔
ممکنہ قانون کو متعارف کرواتے ہوئے وزیر برائے سماجی بہبود کا کہنا تھا کہ کسی بھی شخص کے لیے اسکی سوچ کے مطابق جنس کا انتخاب اور اسکی آزادی انتہائی اہم تھی، ہم اس راہ میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ والدین کی رضامندی اور طبی معائنے کو ختم نہیں کر رہے البتہ افراد کو انتخاب کی مکمل آزدی ہو گی۔
سماجی ماہرین کے مطابق قانون سے جنس تبدیلی کی درخواستیں بڑھنے کا امکان ہے تاہم تعداد کے حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
یاد رہے کہ 2018 میں ایسا ہی ایک قانون لانے کا حکومتی ارادہ قانونی مشیروں کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنا تھا، جس پر حکومت نے منصوبہ معطل کر دیا تھا۔ اس وقت قانون میں والدین کی اجازت کے بغیر 15 سال کی عمر میں سرجری کروانے کی اجازت کی شق بھی شامل تھی۔
واضح رہے کہ سویڈن میں قانون کے ناقدین کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ کچھ طبی و سماجی ماہرین کے مطابق عمر کو کم ا زکم 25 سال مقرر کیا جانا چاہیے۔ ماضی سے تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ بہت سے افراد سرجری کے کچھ ہی عرصے کے بعد اپنے بچگانہ فیصلے پر پچھتاتے ہیں، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔