بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کاٹجو نے ہندتوا نظریے کے بانی ونایک دامودر سوارکر (1883-1966) کو برطانوی راج کا پٹھو قرار دیا ہے۔ سوارکر کی137ویں سالگرہ پر ایک آن لائن تحریر، “سوارکر کے بارے میں سچ” میں جسٹس کاٹجو نے لکھا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف زہر فشانی کر کے سوارکر نے “تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی برطانوی سامراجی پالیسی کو فائدہ پہنچایا۔
جسٹس کاٹجو نے لکھا ہے کہ آج کچھ گروہ سوارکر کو ہیرو مانتے ہیں پر ایسا اس لیے ہے کہ وہ سوارکر کی حقیقت نہیں جانتے۔ سوارکر کو سن 1910 میں برطانوی جیل سے دوہری پھانسی کی سزا سے معافی اور رہائی ملی ہی اس شرط پر تھی کہ وہ برطانوی ایجنٖڈے پر کام کریں گے۔ جسٹس کاٹجو کہتے ہیں کہ 1910 تک سوارکر آزادی کا ہیرو مانا جا سکتا ہے مگر برطانوی حکومت سے معافی کی درخواست اور بعد میں خاص معاشرتی تقسیم کی سیاست اس بات کا ثبوت ہے کہ سوارکر نے نظریے پر جان کو فوقیت دی۔ اور ایسا شخص قومی ہیرو نہں ہو سکتا۔
جسٹس کاٹجو نے لکھا ہے کہ برطانوی سامراج کا طریقہ واردات ہی یہ تھا کہ وہ لمبی جیل یا پھانسی کی سزا دیتے اور اس دوران لوگوں کی وفاداریاں خریدتے۔ ایک قومی ہیرو کی جانب سے معافی کی درخواست برطانوی ایجنٹی قبول کرنے کی شرط پر پہ قبول ہوسکتی تھی۔ سوارکر کو معاشرے میں تقسیم کا ایجنڈا دیا گیا، جسے اس نے مسلمانوں کے خلاف زہر فشانی کر کے ہندوستان میں مذہبی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کیا اور دو قومی نظریے کی بنیاد رکھی۔ جسٹس کاٹجو دعویٰ کرتے ہیں کہ دس سال جیل کی سزا کاٹنے اور پھانسی معاف کروانے کے بعد سوارکر کی سیاست ہندو قوم پرستی کی بنیاد پر تھی۔
سوارکر کی جانب سے دوسری جنگ عظیم میں برطانوی سامراجی فوج میں شامل ہونے کی ترغیب پر جسٹس کاٹجو لکھتے ہیں کہ ہندو مہاسبھا کے ایک چتمن برہمن صدر سوارکر نے اس دوران ہندوستان میں “مہا بھارت” کا نعرہ لگا دیا۔ اور ہندوؤں کو یہ کہہ کر برطانوی فوج میں شامل ہونے پر اکسایا کہ اس بہانے وہ عسکری تربیت لے سکیں گے اور ہندوستان کوہندوؤں کا وطن بنا سکیں گے۔ 1942 میں ایک طرف سامراجی فوج میں بھرتی کے خلاف کانگریس “ہندوستان چھوڑ” تحریک چلارہی تھی اور دوسری طرف سوارکر اس پر تنقید سے ہندوؤں میں بھی تقسیم پیدا کر رہے تھے۔
جسٹس کاٹجو مزید لکھتے ہیں کہ اگر سوارکربرطانوی پٹھو نہ ہوتا تو اسے بھی بھگت سنگھ، سوریا سین، چندرشیکھر آزاد، بسمل اشفاق، راج گورو، اور خودی رام بوس کی طرح سخت سزاؤں یا موت کا سامنا کرنا پڑتا۔ دو بار پھانسی کی سزا معاف کروا کر برطانوی ایجنڈے پر کام کرنے والا کیسے ہمار قومی ہیرو ہو سکتا ہے، جسے ہم نے سب سے بڑے عوامی تمغے “ویر چکر” سے نوازا ہے۔
اگرچہ سوارکر کے بارے میں ایسے خیالات کا اظہار اس سے قبل بھی ہو چکا ہے پر جسٹس کاٹجوکے سابق جسٹس ہونے کی وجہ سے ہندوستان میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ آر ایس ایس، بجرنگ دل اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں انہیں آڑے ہاتھوں لے رہی ہیں جبکہ بی جے پی کی ہندتوا پالیسیوں کے ناقدین جسٹس کاٹجو کی بےباکی کو سراہ رہے ہیں۔