پاکستان میں چینی مافیا کے پراپیگنڈے کے تحت گنے کی کاشت عروج پر ہے۔ جبکہ زرعی ماہرین کے مطابق یہ فصل پاکستان میں خشک سالی کی بڑی وجہ بن کر سامنے آرہی ہے۔
امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا کے سیٹلائیٹ سے لی گئی تصاویر کے ذریعے ظاہر ہوا ہے کہ پاکستان بھر میں دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ زیر زمین پانی وافر مقدار میں نکالنے سے پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے، جس پر ادارے نے پاکستان کو بھی پانی کی قلت والے خطے میں شامل کردیا ہے۔
ایک مختاط اندازے کے مطابق صرف ایک کلو چینی کی تیاری میں تقریباً 4500 لیٹر پانی خرچ ہوتا ہے، یعنی ایک ٹن گنے کے لیے 4 ہزار کیوبک میٹر پانی درکار ہوتا ہے، اور اگر 12 کلو گنے سے ایک کلو چینی کا حساب لگایا جائے توتقریباً 4500 لیٹر پانی سے ایک کلو چینی تیار ہوتی ہے۔ وزارت آبپاشی، واپڈا اور دیگر خرچوں کے ساتھ اگر پانی کا کم ترین خرچ آدھا پیسہ فی لیٹر بھی تخمینہ لگایا جائے تو ایک کلو چینی پر پانی کا خرچ 22.5 روپے بنتا ہے۔ اور تو اور اس پر کئی ارب روپے کی سبسڈی اس کے علاوہ ہے۔ اس سب کے باوجود پاکستانیوں کو چینی عالمی منڈی میں چینی کی قیمت 62 روپے فی کلو سے مہنگے دام خریدنا پڑتی ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں ایک طرف تو پانی کے شدید بحران کا خطرہ ہے جبکہ دوسری طرف کم پانی کی لاگت والی فصلوں کے بجائے کئی گنا زائد پانی کے استعمال والی گنے کی فصل کو غیر اعلانیہ ترجیح حاصل ہو چکی ہے۔ جس کے پیچھے چینی مافیا کا پراپیگنڈہ ملوث ہے۔
زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ممالک عموماً 20 سالہ زرعی منصوبے کے تحت چلتے ہیں تاہم پاکستان نے 70 کی دہائی کے بعد سے نہ تو کوئی بڑا ڈیم بنایا ہے اور نہ ہی خاص منصوبہ بندی کی ہے، جس کی وجہ سے ملک جلد بڑے زرعی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں اکثر سیلاب آرہے ہیں جبکہ دوسری طرف لاپرواہی سے قیمتی پانی بھی ضائع ہورہا ہے۔ ایسے میں ناسا کی 2025 سے خشک سالی کی تنبیہ خطرے کی گھنٹی کے سوا کچھ نہیں۔
مسئلے کے حل کے لیے زرعی ماہرین کی رائے ہے کہ کاشتکاروں میں آگاہی پھیلانے کی اشد ضرورت ہے۔ کاشتکاروں کو چاہیے کہ کئی گنا زائد پانی اور وقت ضائع کرنے والی گنے کی فصل کے بجائے دیگر فصلوں پر کام کریں۔ گنے کی فصل اوسطاً 14 ماہ میں تیار ہوتی ہے جبکہ کپاس اور سورج مکھی کم وقت میں تیار ہو جاتی ہیں اور پانی بھی کم استعمال کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ دونوں فصلیں ملکی برآمدات اور درآمدات پر بھی براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کپاس پاکستان کی ایک اہم فصل ہے تاہم چینی مافیا کے پراپیگنڈے کے زیر اثر ملک میں کپاس کی پیداوار اس قدر متاثر ہوئی ہے کہ رواں سال اربوں ڈالر کی کپاس درآمد کیے جانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔