. تحریر: شاکراللہ
چین اور امریکا کے تعلقات کے بارے میں ایک بیانیہ وہ ہے جو امریکا اور بعض مغربی ممالک کی طرف سے پیش کیا جارہا ہے۔ کچھ بیانیے وہ ہیں جو مخلوط قسم کے ہیں۔ جن میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اگر امریکا چین کو زچ کررہا ہے تو چین بھی کچھ کم جواب نہیں دے رہا۔ اس بیانیے کے مطابق یہ دو ہاتھیوں کے مفادات کی لڑائی ہے۔ چین امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ ایک نظر ڈالتے ہیں۔
چین کے وزیر خارجہ اور ریاستی کونسلر وانگ ای نے گیارہ جولائی کو چین امریکا تھنک ٹینکس میڈیا فورم سے اہم خطاب کیا۔ بیجنگ اور واشنگٹن کے تعلقات خراب ہونے کے بعد چین کی امریکا پالیسی کے بارے میں یہ انتہائی اہم اور جامع خطاب تھا۔ اس خطاب کے کچھ نکات آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔
وانگ ای نے تسلیم کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد یہ سب سے مشکل دور ہے۔ 1979 کے بعد سے، چین اور امریکا کے تعلقات اتنے بڑے پیمانے پر کبھی خراب نہیں رہے جتنے اب ہیں۔ چین کی خارجہ پالیسی کی ٹیم کے قائد کی حیثیت سے وانگ ای نے چین امریکا تعلقات کے طویل مدتی استحکام کے راستے پر بحالی پر زور دیا اور اس مقصد کےلیے عملی تجاویز پیش کیں۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے 40 سال کے دوران امریکا میں ہمیشہ ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو چین کے سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔ اس امید کے ساتھ کہ چین امریکی ماڈل اختیار کرے گا۔ وانگ ای نے واضح کیا کہ چین امریکا نہیں بن سکتا، اور نہ کبھی بننے کی کوشش کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ چین اور امریکا کو ایک دوسرے کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے بجائے انہیں مختلف نظاموں اور تہذیبوں کے پرامن بقائے باہمی کےلیے راہیں تلاش کرنے کےلیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ اور یہی چینی سفارتکاری کا دونوں ممالک کے بقائے باہمی کےلیے لائحہ عمل ہے۔
وانگ ای نے کہا کہ میرے نزدیک چین کی جانب سے امریکا کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کےلیے خاطر خواہ خیر سگالی موجود ہے۔ چین نے کبھی بھی امریکا کے بنیادی مفادات کو نہیں چھیڑا، نہ کبھی اپنے جنگی جہاز یا لڑاکا طیارے بحر کیریبین بھیجے، نہ کبھی امریکا کی میکسیکو، کینیڈا یا لاطینی امریکا کے ساتھ معاملات میں مداخلت کی اور نہ ہی امریکا کے اندر کسی سیاسی قوت کی حمایت کی۔ بلکہ اس کے برعکس چین نے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد امریکا کے قائم کردہ بین الاقوامی نظام کو برقرار رکھنے کا عہد کیا ہے۔
وانگ ای نے کہا ’’چین کی امریکا پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ہم اب بھی خیر سگالی اور خلوص کے ساتھ چین امریکا تعلقات کو آگے بڑھانے کےلیے تیار ہیں۔ چین امریکا تعلقات کو مستحکم رکھنے کےلیے یہ چین کا پختہ عزم ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ موجودہ غیر یقینی صورتحال کے دوران ایسی پالیسیاں برقرار رکھنا اہم بھی ہیں اور مثبت بھی۔
وانگ ای نے کہا ’’یہ ضروری ہے کہ چین امریکا تعلقات کے تاریخی تجربے کے بارے میں صحیح نظریہ قائم ہو، اور بات چیت اور تعاون کا راستہ برقرار رہے۔‘‘ انہوں نے عملی گفتگو اور تعاون کےلیے تین تجاویز پیش کیں۔ سب سے پہلے، بات چیت کےلیے تمام چینلز متحرک اور کھلے رکھنا، دوسری، بات چیت کی فہرستوں کا دوبارہ جائزہ لے کر نکات پراتفاق کرنا۔ تیسری، کووڈ 19 پر توجہ مرکوز رکھنا اور اس کی روک تھام کےلیے تعاون کرنا۔
وانگ ای نے کہا کہ چین روس کی طرح امریکا کے ساتھ کسی سرد جنگ کے بارے میں نہ تو سوچ رہا ہے اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔
وانگ ای کے خطاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی چین مخالف حکمت عملی مشکل سے کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔ اگر ایک طرف امریکا دو طرفہ تعلقات کو کچلنے کےلیے ایکسلریٹرپر دباؤ بڑھا رہا ہے تو دوسری طرف چین دونوں ممالک کے تعلقات کو مسلسل خرابی سے روکنے کی امید کے ساتھ بریک لگارہا ہے۔
وانگ ای نے سوال اٹھایا ’’کیا چین امریکا تعلقات کا دیوہیکل جہاز چار دہائیوں سے زیادہ عرصے کے سفر کے بعد مستقبل میں صحیح راستے پر قائم رہ پائے گا؟‘‘ یہ سوال صرف چینی اور امریکی عوام کے مفادات کےلیے اہم نہیں، بلکہ دنیا اور انسانیت کے مستقبل کےلیے بھی اہم ہے۔
چین اور امریکا کے تعلقات کے زوال کو روکنا دنیا کی ترقی کو مزید بگاڑ سے بچانا ہے۔ اس وقت پوری دنیا سنگین صورتحال سے دوچار ہے۔ کورونا وائرس کے وار جاری ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کووڈ 19 کے بارے میں بد سے بدتر صورتحال کی پیش گوئی کررہی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس وبا کا عروج ابھی باقی ہے۔ وائرس سے لڑتے لڑتے ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ افراد اپنی جا ن کی بازی ہار چکے ہیں۔ ایک مایوس کن تخمینے کے مطابق اس مہلک وبا سے 3.2 ملین افراد ہلاک ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں امریکا، چین اور دنیا کے دیگر ممالک اگر ایک صفحے پر نہیں آتے، متحد نہیں ہوتے، آپس میں تعاون نہیں کرتے تو ممکن ہے دنیا ایک تاریک دور میں داخل ہوجائے۔