Shadow
سرخیاں
مغربی طرز کی ترقی اور لبرل نظریے نے دنیا کو افراتفری، جنگوں اور بےامنی کے سوا کچھ نہیں دیا، رواں سال دنیا سے اس نظریے کا خاتمہ ہو جائے گا: ہنگری وزیراعظمامریکی جامعات میں صیہونی مظالم کے خلاف مظاہروں میں تیزی، سینکڑوں طلبہ، طالبات و پروفیسران جیل میں بندپولینڈ: یوکرینی گندم کی درآمد پر کسانوں کا احتجاج، سرحد بند کر دیخود کشی کے لیے آن لائن سہولت، بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث، صرف برطانیہ میں 130 افراد کی موت، چشم کشا انکشافاتپوپ فرانسس کی یک صنف سماج کے نظریہ پر سخت تنقید، دور جدید کا بدترین نظریہ قرار دے دیاصدر ایردوعان کا اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رنگ برنگے بینروں پر اعتراض، ہم جنس پرستی سے مشابہہ قرار دے دیا، معاملہ سیکرٹری جنرل کے سامنے اٹھانے کا عندیامغرب روس کو شکست دینے کے خبط میں مبتلا ہے، یہ ان کے خود کے لیے بھی خطرناک ہے: جنرل اسمبلی اجلاس میں سرگئی لاوروو کا خطاباروناچل پردیش: 3 کھلاڑی چین اور ہندوستان کے مابین متنازعہ علاقے کی سیاست کا نشانہ بن گئے، ایشیائی کھیلوں کے مقابلے میں شامل نہ ہو سکےایشیا میں امن و استحکام کے لیے چین کا ایک اور بڑا قدم: شام کے ساتھ تذویراتی تعلقات کا اعلانامریکی تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ و حساس دستاویزات کی چوری: انوکھے طریقے پر ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئے

پاکستانی فوجی افسران کو حاصل مراعات اور اسکی تاریخ

آج کل پاکستانی سماجی ذرائع ابلاغ خصوصاً ٹویٹر پر ریاستی عسکری ادارے خصوصاً اعلیٰ افسران کے خلاف دوبارہ ایک مہم جاری ہے۔ جس میں ادارے کے افسران کو دوران ملازمت اور بعد ازملازمت ملنے والی مراعات اور ان کا پرتعش رہن سہن زیر بحث ہے۔ بظاہر اس کے پیچھے وہ گروہ یا فکر کارفرما ہے جو عسکری ادارے کی جانب سے ملک کی سیاسی اور سماجی پالیسی سازی میں فوج کے کردار کی شدید ناقد ہے، اور اسے بظاہر مغربی جمہوری نظریے کی طرز پر ایک ادارہ دیکھنا چاہتی ہے۔

حالیہ مہم کا آغاز وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات عاصم باجوہ کے اثاثوں میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے ڈی ایچ اور ملک میں دیگر مقامات پر کمرشل پلاٹوں، کئی ایکڑ زرعی زمین، گھر اور گاڑی جیسی تفصیلات سامنے آنے کے بعد شروع ہوئی۔ جس میں لوگوں کا کہنا ہے کہ پاک فوج کے افسران کو ملنے والی مراعات کا جائزہ لیا جائے۔ جس میں گفتگو کا بیانیہ یہ ہے کہ فوجی افسران کو ملنے والی مراعات بہت زیادہ ہیں۔

پاکستان، مصر اور ترکی یعنی ایسے ممالک جہاں فوج مقامی سیاست میں براہ راست سیاست میں مداخلت کرتی ہے اور ایک مظبوط ادارہ ہے، کے عسکری اداروں پر اور ان کے افسران کے رہن سہن ہر نہ صرف عالمی و مقامی ذرائع ابلاغ بلکہ عالمی سطح پر ان ممالک کی سیاست پر نظر رکھنے والی ماہرین بھی لکھتے رہتے ہیں، ایسی ہی کچھ کتابوں، اخباری و دیگر تحریروں کے ساتھ ساتھ حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران سے بات چیت پر مبنی یہ تحریر کسی حد تک پاکستانی فوج میں افسران کو حاصل مراعات کا احاطہ کرتی ہے۔

پاک فوجی افسران کو دی جانے والی مراعات اور تاریخ

پاکستانی فوج میں افسران کو مراعات دینے کا نظام پہلے سے وضع کردہ ہے جس میں بلا شبہ وقت کے ساتھ تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ پاکستان میں فوجی افسران کو ریٹائرمنٹ کے بعد جو پلاٹ، گھر اور دیگر مراعات ملتی ہیں اس کا تعلق فوج میں گزارے گئے وقت سے ہوتا ہے۔ عسکری حکام کے مطابق فوجی افسر کو ملازمت کے پہلے دن ہی ایک فارم دیا جاتا ہے جو عسکری رہائشی منصوبوں کی رکنیت اختیار کرنے کا ہوتا ہے۔ رکنیت حاصل کرنے والے کو ایک لاکھ روپے جمع کروانے ہوتے ہیں اور پھر ہر ماہ اس کی تنخواہ سے کچھ مقررہ کٹوتی ہوتی رہتی ہے۔

ضابطہ کار کے تحت جب کوئی فوجی افسر 15 سال سروس کر لیتا ہے تو پھر وہ ایک پلاٹ کا حقدار ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں 15 سال میں زیادہ تر افسران میجر کے عہدے تک پہنچ چکے ہوتے ہیں، یعنی میجر کے عہدے سے ہی فوج میں مراعات ملنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد جب ایک افسر تقریباً 25 سال تک ملازمت کر لیتا ہے تو اس کے بعد وہ مراعات کے دوسرے پیکج کا حقدار ہو جاتا ہے۔ 25 سال کی ملازمت کے بعد افسران کرنل یا بریگیڈیئر کے عہدے پر پہنچ چکے ہوتے ہیں۔

پاک فوج پر تفصیلی تحقیق اور عالمی سطح پر معروف مصنفہ عائشہ صدیقہ کے مطابق جب کوئی بریگیڈیئر جنگی مہارت کا امتحان پاس کر لیتا ہے تو وہ دو کمرشل اور ایک رہائشی پلاٹ کا حقدار ہو جاتا ہے۔ ان کے مطابق اس امتحان کو پاس کیے بغیر بریگیڈیئر دو رہائشی اور ایک کمرشل پلاٹ حاصل کرتا ہے۔ میجر جنرل بننے سے ایک اضافی پلاٹ ملتا ہے جبکہ لیفٹیننٹ جنرل چار پلاٹوں تک کا حقدار ہو جاتا ہے۔ یہ پلاٹ رہائشی اور کمرشل دونں اقسام کے ہوتے ہیں۔ البتہ یہ مختلف شہروں میں الاٹ کیے جاتے ہیں۔ ایک چار ستارہ جنرل جو سالار بھی بن سکتا ہے، اسے پلاٹوں کے علاوہ ریٹائرمنٹ پر تین سرکاری ملازمین بھی دیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک گھر کا ملازم، دوسرا ٹیلی فون آپریٹر اور تیسرا ڈرائیور ہوتا ہے۔

عائشہ صدیقہ کے مطابق ایک جنرل ریٹائرمنٹ پر پلاٹوں اور زرعی زمین کی مد میں ایک ارب روپے سے زائد کی مراعات حاصل کر لیتا ہے۔

عائشہ صدیقہ کے مطابق اگر لیفٹیننٹ جنرل اس کے علاوہ کسی کور کا کمانڈر بھی رہا ہو تو پھر ایسی صورت میں وہ تین سال تک اس عہدے پر رہنے کی وجہ سے ڈی ایچ اے کے ہر نئے سیکٹر میں پلاٹ کا مالک بھی بنتا ہے۔ اور یہ زمینی ٹکرے دوسرے شہروں کے ڈی ایچ ای منصوبوں کے ساتھ بدلے بھی جا سکتے ہیں، تاہم مصنفہ کی اس معلومات سے بعض افسران متفق نہیں ہیں۔ اور ادارہ خود درست معلومات کی فراہمی سے دفاعی نقطہ نظر کے تحط کتراتا ہے۔ تاہم اپنی بات کی دلیل کے طور پر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ تین سال تک سدرن کمانڈ کے سربراہ رہے مگر ان کا اثاثوں میں ایک پلاٹ بھی بلوچستان میں نہیں دکھایا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے انہوں نے وہ زمینی ٹکرا کسی دوسرے شہر میں حاصل کیا۔

بیشتر عسکری افسران اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ پرویز مشرف کے دور میں مراعات کی پالیسی تنازعات کا شکار بنی مگر سابق سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں اس معاملے میں زیادہ شفافیت لائی گئی۔ تاہم ان کے دور میں ڈی ایچ اے مختلف تنازعات کی زد میں بھی رہا اور متعدد معاملات عدالتوں تک پہنچے۔

عائشہ صدیقہ کے مطابق ضیا الحق کے دور تک افسران پر نوازشات اتنی زیادہ نہ تھیں، تاہم اس کے بعد ان میں بہت زیادہ اضافہ کیا گیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

فوج میں میجر کے عہدے سے مراعات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے تاہم زرعی زمین کرنل سے لے کر لیفٹیننٹ جنرل تک افسر کو تقریباً دو مربع زرعی زمین 99 سال کی انتہائی آسان قسطوں پر دی جاتی ہے جبکہ جنرل کو مزید اضافی زمین بھی ملتی ہے۔ جبکہ یہ افسران ریٹائرمنٹ کے بعد فوج کے رہائشی منصوبوں میں گھر بھی حاصل کرتے ہیں۔

کیا ایسے میں یہ کہنا درست ہے کہ فوج کا مراعات کا نظام میرٹ پر مبنی ہے؟

حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ایک بریگیڈیئر نے اپنی مدت پوری ہونے سے قبل فوج سے ریٹائرمنٹ لی۔ ان کے مطابق مراعات کا تو ایک نظام ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ زرعی زمین امتیازی بنیادوں پر تقسیم کی جاتی ہے۔ کیونکہ پاکستان میں اعلٰی فوجی افسران کے علاوہ کسی محکمے کے افسران کو زرعی زمین الاٹ نہیں کی جاتی۔

تاہم فوجی افسران میں اعلیٰ و عرفہ ہونے کے دیگر نظریات کی طرح یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ ایک فوجی افسر سخت جان ہوتا ہے اور اسے غیر آباد زمین اس لیے دی جاتی ہے تاکہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ملک و ملت کی خدمت میں شامل رہے اور آبائی علاقہ چھوڑ کر دیگر غیر آباد زمینوں کو بھی آباد کرے۔ اوپر ذکر کیے گئے بریگیڈیئر صاحب اپنی رائے کی توجیح پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فوجی افسر کو ملنے والی مراعات مفت نہیں ہوتیں البتہ رعائتی ضرور ہوتی ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شعیب امجد کے مطابق فوجی افسران کو جو زرعی زمین آسان اقساط پر ملتی ہے وہ بنجر یا غیر آباد ہوتی ہے اور اسے آباد کرنا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ یہ نہری بھی نہیں ہوتی۔ اس کے لیے ٹیوب ویل کا انتظام فوجی افسر نے خود کرنا ہوتا ہے۔ اپنی زمین کا ذکر کرتے ہوئے شعیب امجد نے کہا کہ انھیں چولستان میں 50 ایکڑ زرعی زمین ملی جس پر وہ سات سال تک کام کراتے رہے۔ ریت زیادہ ہونے کی وجہ سے 25 ایکڑ سے ریت نکال کر دوسرے 25 ایکڑ پر ڈال دی گئی۔ مگر یہ زمین دور ہونے کی وجہ سے انھیں یہ 75 لاکھ میں بیچنی پڑی اور اس کے بعد انھوں نے اپنے خاندان کے لیے راولپنڈی میں ایک گھر خرید لیا۔ کیونکہ وہ زمین کو آباد کرنے میں ناکام رہے۔ جبکہ اس زمین بیچنے کے لیے بھی جی ایچ کیو سے اجازت لینا ضروری ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلے ادوار میں فوجی افسران کو چھاؤنیوں میں گھر آسان اقساط پر دیا جاتا تھا جسے 20 سال تک فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ تاہم اب عسکری رہائشی منصوبوں میں پلاٹ یا گھر دیے جاتے ہیں۔

فوج میں دیگر اداروں سے امتیازی مگر خود سے مرتب کردہ نظام کے تحت ادارے میں منصفانہ مراعات کا سلسلہ آزادی پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ آزادی سے قبل مراعات صرف وفادار یا اعلیٰ خدمات فراہم کرنے والوں کو دی جاتی تھیں تاہم آزدی کے بعد یہ سلسلہ رکنے پر، خود سیاسی مداخلت یعنی ایوب خان کے فوج کشی کرتے ہی قانونی طور پر شروع ہو گیا۔

جنرل امجد اپنے ادارے کے سابق سپہ سالار کے بارے میں گفتگوکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنرل ایوب خان نہ صرف خود جائیدادوں کے خواہشمند تھے بلکہ پاک فوج میں زمینی ٹکڑوں کی تقسیم کا رحجان بھی انہوں نے پروان چڑھایا۔ اور فوج کے دیگر ریٹائرڈ افسران بھی اس رائے سے متفق نظر آتے ہیں، اور تو اور کچھ کے مطابق فوج میں پلاٹوں کی تقسیم بھی منصفانہ نہیں ہوتی۔ ریٹائرڈ بریگیڈیئر واصف علی کہتے ہیں، پہلے پہل تو سب کو مراعات مل جاتی تھیں مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اب اگر حکومت دے دے تو زرعی زمین ملتی ہے وگرنہ یہ حق نہیں کہہ کر معاملہ رفع دفعہ ہو جاتا ہے اور اسے دستیابی سے مشروط کر دیا جاتا ہے۔

سابق آرمی چیف جنرل ایوب کے صاحبزادے اور پاکستان کے سابق وزیر خارجہ گوہر ایوب نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ان کے دادا کو گھڑ سواری کا شوق تھا، وہ انگریزوں کو گھوڑے بھی بیچا کرتے تھے۔ انگریزوں نے انھیں فوج میں ملازمت بھی دی۔ ملک کے پہلے کمانڈو صدر کے بیٹے کے مطابق ان کے دادا اگرچہ ان پڑھ تھے مگر پھر بھی انگریزوں کی خدمت کر کے انگریز دور میں مراعات لینے میں کامیاب رہے۔

گوہر ایوب کے مطابق انگریزوں کی چاکری اور ملت سے دھوکہ کر کے مراعات لینا ان کے دادا کی کامیابی تھی۔

فوجی افسران کو ان کے عہدے کے اعتبار سے ریٹائرمنٹ کے بعد زرعی زمین بھی الاٹ کی جاتی ہے۔ سابق سپہ سالار راحیل شریف کو لاہور میں 90 ایکڑ زمین کی فراہمی خبروں کی زینت بنی اور یہ زمین سرحدی بھارتی سرحد کے قریب دی گئی، تاہم مختلف خبروں کے مطابق فوج کے جرنل ہیڈ کوارٹر کی جانب سے یہ زمین کچھ شرائط کے ساتھ 33 سال کی آسان قسطوں پر دی گئی ہے۔ امجد شعیب کے مطابق جنرل راحیل شریف کو لاہور میں الاٹ ہونے والی زمین پر درخت لگانے ہوں گے، وہ اس زمین پر رہائشی سکیم نہیں بنا سکتے اور بوقت ضرورت فوج ان سے یہ زمین کسی بھی وقت واپس لے سکتی ہے۔ جنرل امجد شعیب کے مطابق چونکہ جنگ ہر وقت نہیں ہو رہی ہوتی ہے تو اس وجہ سے سرحدی سکیم کے تحت مقامی لوگوں اور ریٹائرڈ فوجیوں کو یہ زمین الاٹ کی جاتی ہے۔ ان کے مطابق اس کا ایک مقصد وہاں دفاع کو یقینی بنانا بھی ہوتا ہے۔ جب فوج سرحدی علاقے خالی کراتی ہے تو پھر یہ فوجی افسران چوں چراں نہیں کر سکتے اور فوج صرف ان کو تیار فصلوں کا معاوضہ دیتی ہے۔ جنرل امجد شعیب اس بات سے متفق ہیں کہ زرعی زمین ملنے کا انحصار عہدے اور سروس کے علاوہ زمین کی دستیابی اور حالات کی سازگار ہونے پر بھی ہوتا ہے۔

تاہم کیا یہی قانون جنگ میں دیگر عوامی زمینوں کے ساتھ نہیں ہوتا؟

پرویز مشرف اور جنرل کیانی کے ادوار میں متعارف ہونے والی تبدیلیاں

آرمی افسران کے مطابق پرویز مشرف نے ایک پریس کانفرنس میں ان مراعات کو فوجی افسران کی خوش قسمتی قرار دیا تھا۔ پرویز مشرف اور جنرل کیانی کے ادوار میں قانونی سازی کے ذریعے ڈی ایچ اے کو مزید اختیارت دیے گئے اور اس اتھارٹی نے دیگر نجی رہائشی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے ساتھ مل کر کاروباری منصوبے چلانے شروع کیے۔ تجزیہ کار اور سابق رکن قومی اسمبلی ایاز امیر کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس معاملے پر اپنا قلم اٹھایا اور ان کی اس حوالے سے تحریریں اب بھی مختلف ویب سائٹوں پر پڑھی جا سکتی ہیں۔

عسکری حکام کے مطابق کرنل اور اس سے اوپر کے رینک کے افسران کو فوج میں ہر سال اثاثے ظاہر کرنے ہوتے ہیں۔ فوج میں ایک کمیٹی ان اثاثوں کا موازنہ ہر سال گذشتہ برس ظاہر کیے گئے اثاثوں سے کرتی ہے۔ جنرل امجد شعیب کے مطابق اگر اثاثوں میں فرق آئے تو منی ٹریل مانگا جاتا ہے۔ تاہم عائشہ صدیقہ کے مطابق اثاثے ظاہر کرنا محکمے کی اندرونی کہانی ہے۔ لیکن جب مراعات کا سلسلہ ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے تو پھر اثاثوں میں اضافے کو کیسے صیحح طور پر پرکھا جا سکتا ہے۔ بریگیڈیئر واصف کے مطابق پاکستان کی فوج کے متعدد فلاحی ادارے کام کرتے ہیں جن کو دنیا میں ایک ماڈل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ فوج میں شہدا کے خاندانوں کے لیے مراعات کا بھی ایک نظام وضع ہے اور ان کے لواحقین کو ڈی ایچ اے میں پلاٹ الاٹ کیے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق جب پاکستان اور انڈیا کی تقسیم ہوئی تھی تو فوجی فاؤنڈیشن کے لیے پاکستان کے حصے میں ایک کروڑ روپے آئے تھے جس کا استعمال پاکستانی فوج نے ذمہ داری سے کیا اور آج ملک میں فوج کے زیر نگرانی متعدد فلاحی ادارے، ہسپتالیں، درسگاہیں، رہائشی سکیمیں اور کمرشل ادارے چل رہے ہیں۔

عائشہ صدیقہ کے مطابق پاک فوج کے اعلیٰ افسران کو حاصل مراعات دنیا میں صرف میانمار اور مصر جیسے ممالک کی افواج کو حاصل ہیں، ان کے علاوہ دنیا میں کسی اور ملک کو یہ مراعات حاصل نہیں

دوست و احباب کو تجویز کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

three × five =

Contact Us