گزشتہ روز فیس بک نے ایک آن لائن بلاگ کے ذریعے خبر دی ہے کہ اس نے پاکستان سے چلائے جانے والے سینکڑوں ایسے فیس بک اور انسٹا گرام کھاتوں/اکاؤنٹ کو حذف کیا ہے جو اس کے خیال میں ‘منظم و غیر مصدقہ’ رویے کے مرتکب ہورہے تھے۔
بلاگ کے مطابق حذف کیے جانے والے کھاتوں میں 453 فیس بک کے کھاتے، 103 فیس بک صفحات، 78 فیس بک گروہ اور 107 انسٹا گرام کے کھاتے شامل ہیں۔ فیس بک کے مطابق حذف کیے جانے والے کھاتے/صفحات/گروہ پاکستان کے اندر سے کام کر رہے تھے، تاہم ان میں سے بعض فیس بک گروہ یہ تاثر دے رہے تھے کہ وہ ہندوستان سے چل رہے ہیں۔
بقول فیس بک حذف کیے جانے والے اکثر کھاتے ایسے بھی تھے جو ہندوستان سے چلائے جانے والے اسلام اور پاکستان مخالف کھاتوں اور صفحات سے متعلق فیس بک کو آگاہ کرتے تھے۔ یعنی وہ نفرت آمیز مواد شائع کرنے والے کھاتوں کی نشاندہی میں فیس بک کی مدد کر رہے تھے، تاہم فیس بک نے انہیں غیر مصدقہ کے کھاتے گردانتے ہوئے حذف کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ نفرت آمیز مواد سے متعلق آگاہی فراہم کرنا فیس بک کی اپنی پالیسی ہے، جس کے لیے فیس بک صارف سے مکمل تفصیل پوچھتا ہے اور اپنے مقرر کردہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مطابق جانچ پڑتال کے بعد ہی کارروائی عمل میں لاتا ہے۔
فیس بک کا کہنا ہے کہ حذف کیے جانے والے صفحات میں بہت سے ایسے بھی تھے جو بھارت مخالف مواد شائع کرتے تھے۔ جن میں ’خالصتان زندہ باد‘ اور ‘پشتون تحفظ تحریک’ کے خلاف صفحات کافی متحرک تھے، خالصتان زندہ باد نامی فیس بک صفحہ ہندوستانی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور بھارتی فوج کے خلاف مواد شائع کرتا تھا جبکہ دوسرا پشتون تحفظ تحریک کے رہنماؤں، منظور پشین وغیرہ کے خلاف خبریں دیتا تھا۔
یعنی فیس بک کے نزدیک سکھ قوم کی خالصتان تحریک کی حمایت تو گناہ قرار پائی ہے تاہم کشمیر کے خلاف فیس بک اور ٹویٹر کا ریکارڈ اس کے بالکل متضاد ہے، جہاں مقامی کشمیریوں کی جانب سے ہندوستان کے مظالم دکھانے پر 2017 سے ہزاروں کھاتے اور لاکھوں پیغامات حذف کیے جا چکے ہیں۔ اور تو اور پاکستان میں لسانی گروہوں کی حمایت والے ہندوستانی صفحات پر بھی کبھی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی، اور نہ کبھی اس پہ کوئی خبر دی گئی کہ وہ ہندوستان سے چلائے جا رہے ہیں یا کہاں سے؟
فیس بک کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اندر سے ہندوستانی فوج اور حکومت کی حمایت میں صفحات بھی چلائے جا رہے تھے۔ جس کے ثبوت کے طور پر ’انڈین آرمی‘ نامی ایک فیس بک گروہ کے سکرین شاٹ کو دکھایا گیا ہے، جسے اب فیس بک حذف کر چکی ہے۔ متذکرہ فیس بک گروہ کی ہندی زبان میں شائع ایک تحریر میں کشمیر میں ہونے والے ایک حملے میں مارے جانے والے بھارتی فوجیوں کو ’شہید‘ قرار دیا گیا ہے، جس پر تبصرے میں ایک صارف نے لکھا کہ پاکستان پر ایٹم بم پھینک دینا چاہیے۔
تاہم اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انڈین آرمی نامی یہ گروہ محض دس ارکان پر مبنی تھا، اور یہ 2016 سے غیر متحرک تھا، تاہم فیس بک نے اسے بطور نمونہ دکھاتے ہوئے پاکستان سے چلایا جانے والا ہندوستانی حمایت والا گروہ قرار دیا، جو فیس بک کی ‘منظم غیر مصدقہ رویے’ کی پالیسی کو توڑنے کا مرتکب ہوا اور فیس بک کو سے حذف کرنا پڑا۔ یوں فیس بک کی متعصبانہ کارروائی کی سنجیدگی اور پاکستان کو بدنام کرنے کے مقاصد کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔
سماجی میڈیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان سے ہندوستان کی فوج کی حمایت میں چلائے جانے والے کھاتوں کا ممکنہ مقصد ایسے افراد/کھاتوں کی نشان دہی کرنا ہو سکتا ہے، جو ملک پرستی میں دشمن کے خلاف نفرت پر مبنی مواد کو پسند کرتے ہوئے ایسے صفحات کی پیروی اور اس کے پیغامات کو آگے چلانا پسند کرتے ہیں۔ یعنی جعلی کھاتوں سے چلائے جانے والے اس عمل سے ہندوستان کے ایسے فیس بک صارفین کی نشاندہی کی جارہی تھی جو پاکستان یا اسلام کے خلاف نفرت انگیز مواد کو پسند اور شائع کرتے ہیں۔ یعنی یہ جعلی صفحات نفرت پھیلانے والے صارفین کو ڈھونڈنے میں فیس بک کی مدد کر رہے تھے۔
پاکستانی انتظامیہ میں یہ تاثر بہت بڑھ چکا ہے کہ فیس بک عمومی طور پر پاکستان اور خصوصآً جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے خلاف بہت متعصب رویے کی مرتکب ہو رہی ہے۔ جسکی بظاہر وجہ ادارے کی انتظامیہ میں ہندوستانی تارکین وطن کا اثر رسوخ کا تشویش ناک حد تک بڑھ جانا ہو سکتا ہے۔ جبکہ علاقائی انتظامیہ یا نمائندوں میں بھی بیشتر آر ایس ایس کے نظریے کے حامل اور مودی کی مسلمان مخالف سیاست سے متفق یا کاروباری مفادات کی خاطر مودی کی ناراضگی کو مول نہ لینے کی رائے کے حامل افراد شامل ہیں۔ اور اس امر کی عکاسی اکثر سامنے آنے والی فیس بک کی کارروائیوں اور وال سٹریٹ جرنل جیسے عالمی خبر رساں اداروں کی رپورٹوں سے ہوتی رہتی ہے۔
ایسے میں پاکستان اور دیگر مسلمان ممالک کو مشترکہ طور پر او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) اور اقوام متحدہ کے فورم سے فیس بک جیسی عالمی کمپنیوں کے خلاف کارروائی یا متعصبانہ رویے کو درست کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔ خصوصاً جبکہ ہندوستان ایسے واقعات کو پاکستان کے خلاف پراپیگنڈے کے طور پر بھی بھرپور استعمال کرتا ہے، خصوصاً عرب ممالک میں کام کرنے والے ہندوستانی تارکین وطن اسے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے بھرپور استعمال کرتے ہیں۔