برطانوی محکمہ صحت نے بدنام زمانہ امریکی سافٹ ویئر کمپنی پلانٹر کے ساتھ کووڈ-19 سے متعلق ڈیٹا کے تجزیے کا معاہدہ کیا ہے۔ برطانیہ پلانٹر کو اس کے کام کے بدلے 2 کروڑ 30 لاکھ برطانوی پاؤنڈ یعنی تقریباً 5 ارب روپے ادا کرے گا۔
حکومتی اقدام پر سماجی حلقوں خصوصاً شہریوں کی نجی معلومات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اداروں اور شخصیات کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار سامنے آیا ہے۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ شہریوں کی صحت سے متعلق معلومات کو ایک بیرونی ملک کمپنی کو یوں مہیا کرنا کسی بھی طرح خطرے سے خالی نہیں، وہ بھی پلاںٹر جیسی کمپنی کو جو کہ امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے اور خفیہ سرگرمیوں میں ملوث رہتی ہے،
واضح رہے کہ پلانٹر پر اس سے پہلے کیے گئے منصوبوں میں نسل پرستی اور دیگر بنیادوں پر تعصب کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ جس کی نمایاں مثال امریکی ریاست لاس اینجلس کی پولیس کا جرائم کی روک تھام کے لیے پلانٹر کے تیار کردہ سافٹ ویئر کا استعمال تھا، جس کے متعصب الگورتھم کے باعث سیاہ فام شہری شدید متاثر ہوئے، اور ریاست میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا۔ کمپنی کو امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم میکسیکو اور لاطینی امریکی افراد کو خاندانوں سے الگ کرنے میں حکومت کی مدد پر بھی سخت تنقید کا سامنا ہے۔
دوسری جانب برطانوی سماجی حلقوں میں تحفظات کی ایک بڑی وجہ معاہدے کا بغیر اعلان کے کیا جانا ہے، یعنی حکومت نے وباء سے متعلق ڈیٹا کے تجزیے کے لیے کوئی اشتہار نہیں دیا اور یک دم ایک بیرونی کمپنی کو ایک بڑا اور حساس کام سونپ دیا ہے۔
برطانوی محکمہ صحت نے وضاحت میں کہا ہے کہ وباء سے بہتر انداز میں نمٹنے کے لیے معلومات کا بہتر تجزیہ ناگزیرہو چکا ہے، جس کی بنیاد پر بروقت اور درست فیصلہ سازی کو یقینی بنایا جا سکے۔ محکمے نے مزید کہا ہے کہ معلومات کے واحد ذریعے سے سامنے آنے سے غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے اور افواہوں کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد ملے گی، اور اس نے ڈیٹا جمع کرنے اور اسکے تحفظ کے لیے بھی پلانٹر کو محفوظ قرار دیا ہے۔
تاہم مختلف مقامی نشریاتی اداروں نے نہ صرف حکومت کے خفیہ معاہدے کی مذمت کی ہے بلکہ سوال اٹھانے پر دی جانے والی معلومات کو نامکمل، غلط اور تذبذب پیدا کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ مختلف اخبارات کے مدیروں نے حکومت سے اقدام سے قبل عوامی اجازت لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔