فیس بک نے برما کی فوج کا مصدقہ نشریاتی صفحہ بند کر دیا ہے۔ فیس بک کا الزام ہے کہ صفحے سے تشدد پر اکسایا جا رہا تھا۔
یاد رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں برمی فوج نے منتخب حکومت کا تحتہ الٹتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا، جس کے خلاف شہریوں کا ایک حلقہ مسلسل احتجاج کر رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال میں اب تک دو شہریوں کی ہلاکت بھی ہو چکی ہے۔
فیس بک نے اپنے اقدام میں انہی ہلاکتوں اور صفحے پر شہریوں کو مظاہرے سے روکنے کا جواز بنا کر سرکاری فوج کے مصدقہ صفحے کو بند کیا ہے۔ فیس بک کا کہنا ہے کہ فوج کی ابلاغ عامہ کی ٹیم مسلسل فیس بک کی ہدایات کی خلاف ورزی کر رہی تھی، اسے تشدد پر اکسانے اور شہریوں کو نقصان میں معاونت پر بند کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ برما کی فوج عمومی طور پر تات مادو کے نام سے جانی جاتی ہے، جس نے یکم فروری کو آںگ سان سوچی کی حکومت کا تحتہ الٹتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ برمی فوج برطانوی نوآبادیاتی دور کی یاد ہے، اور یہ خطے میں برطانیہ کی پہلی تربیت یافتہ فوج ہے۔ اسکے عوام پر مظالم خصوصاً مسلمانوں کے خلاف جبر کی ایک لمبی تاریخ ہے تاہم ملک کی عوامی قیادت، آنگ سان سوچی بھی مسلمانوں کے حق اور تحفظ میں لب کشی نہ کرنے کے باعث مسلمان ممالک کی حمایت کھو چکی ہیں۔ انہیں امریکہ کے لبرل حلقے کی نمایاں حمایت حاصل ہے اور انہی کی کوششوں کے باعث سوچی کو امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا تھا۔
میڈیا کے سوال پر تات مادو یعنی برمی فوج نے فیس بک کی بندش پر کسی تبصرے سے انکار کیا ہے۔
دوسری طرف مختلف حلقوں کی جانب سے فیس بک کی بندش کی پالیسیوں پر ایک بار پھر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ آزادی اظہار اور حکومتی رٹ کا معاملہ ایک بار پھر عالمی توجہ کا باعث بنا ہے۔